گرد کے عنوان سے کیوں مل رہی ہے گرد ساقی
گرد کے عنوان سے کیوں مل رہی ہے گرد ساقی
درد مندانی کی جانب آئے ہیں ہمدرد ساقی
وہ جو ساغر ہاتھ میں لے چشم سے ہی جام ہوگا
بارہا وہ محفلوں کی شان ہے مے فرد ساقی
بزم خود کے موسموں کی رنگ و بو سرشار ہے یاں
گرمیٔ مے نوش پا کر کچھ تو ہے واں سرد ساقی
بے بدل بے اختیاراں کیا مجھے سر چور شیشہ
مجھ کو پھر دے کر دوا کر تو دوا کو درد ساقی
اشک عاجز ہوتے ہوتے عشق باعث کیوں نہ ہوگا
ایک ہی دم سوز سے جو دیکھ لے بے پرد ساقی
حضرت ناصح سے جا معلوم کر درد و کسک تو
ایک ہے بے درد ساقی ایک ہے پر درد ساقی