گرچہ باطل کو نا پسند رہا
گرچہ باطل کو نا پسند رہا
نعرۂ حق مگر بلند رہا
جس نے عرض نیاز بھی نہ سنی
دل اسی کا نیاز مند رہا
پی لیا زہر تلخیٔ ایام
پھر بھی لہجہ ہمارا قند رہا
بے حسی تھی مرے تعاقب میں
اس لیے میں فصیل بند رہا
سرنگوں رتجگوں کو ہونا پڑا
پرچم خواب سر بلند رہا
کیا ملے اس سے ایک بار سخنؔ
موج میں فکر کا سمند رہا