غم میں ہر لب پہ وہی آہ و بکا آتی ہے
غم میں ہر لب پہ وہی آہ و بکا آتی ہے
مختلف ساز ہیں اور ایک صدا آتی ہے
ہو کے زنداں سے جو گلشن کی ہوا آتی ہے
اور دیوانوں کو دیوانہ بنا آتی ہے
پست ہوتی ہے جہاں اہل دلا کی ہمت
اس جگہ کام غریبوں کی دعا آتی ہے
مجھ سے ہر حال میں اچھا ہے تصور میرا
کم سے کم آپ کی تصویر بنا آتی ہے
جب جفاؤں سے پڑا کام تو سب بھول گئے
ناز تھا ہم کو کہ ہم کو بھی وفا آتی ہے
دل ہے یا ساز شکستہ ہے نہ جانے کیا ہے
ایک سے ایک خوش آئند صدا آتی ہے
فرصت اتنی نہیں ملتی کہ کبھی غور کریں
ورنہ ہر درد کی خود ہم کو دوا آتی ہے
جام سرشار ادھر ہے میں ہوں توبہ ہے ادھر
اور ادھر کعبہ سے اک مست گھٹا آتی ہے
دن نکلتا ہے تو آتی ہے مجھے رات کی یاد
رات آتی ہے تو اک تازہ بلا آتی ہے
اس طرف پائے شکستہ میں نہیں تاب سفر
اس طرف کان میں آواز درا آتی ہے
دل میں جو آگ بھڑکتی ہے بجھاتی ہے وہ آنکھ
خوب دونوں کو لگا اور بجھا آتی ہے
آپ گمراہ ہے شوکتؔ مری وحشت لیکن
راستہ بھولنے والوں کو بتا آتی ہے