گلے سے دیر تلک لگ کے روئیں ابر و سحاب
گلے سے دیر تلک لگ کے روئیں ابر و سحاب
ہٹا دیے ہیں زمان و مکاں کے ہم نے حجاب
لحد کی مٹی کی تقدیر کی امان میں دوں
سفید لٹھے میں کفنا کے سرخ شاخ گلاب
میں آسمان ترے جسم پہ بچھا دیتا
مگر یہ نیل میں چادر بنی نہیں کمخواب
ترا وہ راتوں کو اٹھ کر سسک سسک رونا
لہو میں نیند کی ٹیسیں پلک پہ عجز کے خواب
ترے جلائے دیوں میں بھڑکتی آگ کا پھیر
زمیں کی رحل پہ رکھے نہ روشنی کی کتاب
ہوا بہشت کے باغوں کی زلف زلف پھرے
تری لحد ترے بالیں کے گرد جوئے شراب
کمان کھینچ زمانے کی سوئے سینہ زناں
اے فرق ناز گلے سے اتار طوق غیاب
میں ایک یخ زدہ ماتھے کو چوم کر دم صبح
تری زمینوں سے گزروں گا اے جہان خراب
مشقتی ہیں ترے کاخ و کوئے ہجر کے ہم
اے کار خانہ افلاک و خاک و آب و سراب
یہ تنگ و تار گڑھا نور سے بھرے عامرؔ
سدا رہے تیرے حجرے میں ہالۂ ماہتاب