غیر شایان رسم و راہ نہیں

غیر شایان رسم و راہ نہیں
کب وہ عاشق ہے جو تباہ نہیں


اے فلک دور حسن میں اس کے
تجھ کو کچھ فکر مہر و ماہ نہیں


ربط دشمن سے بھی وہ بد بر ہے
اب کسی طرح سے نباہ نہیں


کم نگاہی کو ان کی دیکھتے ہیں
ان پہ بھی اب ہمیں نگاہ نہیں


پردہ کب تک رہے گا اے ظالم
اختر مدعی سیاہ نہیں


ظلم کی قدر کے لئے ہے رحم
داد کچھ بہر داد خواہ نہیں


حیف قزاقیٔ زمانہ حیف
رسم و رہ بہر رسم و راہ نہیں


ہے گدا شاہ بلکہ شاہنشاہ
سطوت قہر بادشاہ نہیں


الفت اور تم سے ہائے ہائے نہ ہو
لب دشمن پہ آہ آہ نہیں


پستی طالع بہر خوبی فن
کیا وہ یوسف جو غرق چاہ نہیں


عرصۂ نیستی و ہستی سے
بچ کے چلنے کی کوئی راہ نہیں


اے قلقؔ کیا ہوا بڑھاپے میں
عشق کچھ سیر صبح گاہ نہیں