غیر سے رسم و راہ کیوں میں نے سنا دیا کہ یوں

غیر سے رسم و راہ کیوں میں نے سنا دیا کہ یوں
اس نے پکڑ کے ہاتھ سے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں


مجھ کو نکما کہہ دیا میں نے کہا بھلا یہ کیوں
آئنہ لے کے ہاتھ میں اس نے دکھا دیا کہ یوں


مردہ دلوں میں زندگی آتی ہے کیسے عود کر
رخ سے نقاب زلف کو اس نے ہٹا دیا کہ یوں


پیار سے پیش آ کے جو وجہ ملال پوچھ لی
محشر شور سے جہاں سر پر اٹھا دیا کہ یوں


دل کو لگی ہے ٹھیس گر مجھ کو بتا دے ماجرا
قطرۂ اشک آنکھ سے اس نے گرا دیا کہ یوں


پوچھا ہمارا حال دل جس نے عراقیؔ پیار سے
اپنا کلام ایک بار پڑھ کے سنا دیا کہ یوں