گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر
گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
یہ دوریوں کا سیل رواں برگ نامہ بھیج
یہ فاصلوں کے بند گراں کوئی بات کر
تیرا دیار رات مری بانسری کی لے
اس خواب دل نشیں کو مری کائنات کر
میرے غموں کو اپنے خیالوں میں بار دے
ان الجھنوں کو سلسلۂ واقعات کر
آ ایک دن مرے دل ویراں میں بیٹھ کر
اس دشت کے سکوت سخن جو سے بات کر
امجدؔ نشاط زیست اسی کشمکش میں ہے
مرنے کا قصد جینے کا عزم ایک سات کر