فرقت کی شب فضا پہ اداسی محیط ہے
فرقت کی شب فضا پہ اداسی محیط ہے
گلزار پر ہوا پہ اداسی محیط ہے
مغموم ماہ و گل ہیں پریشاں ہے چاندنی
فطرت کی ہر ادا پہ اداسی محیط ہے
تارے چمک رہے ہیں پر اپنے خیال میں
تاروں کی کل ضیا پہ اداسی محیط ہے
آ جاؤ اب خدا کے لئے بہر اتصال
معمورۂ وفا پہ اداسی محیط ہے
اظہرؔ کو آج دیکھ تو لو دوستو ذرا
دل سے سوا قبا پہ اداسی محیط ہے