فرانسیسی فوج کس کے ڈر سے مالی چھوڑ کر بھاگ رہی ہے؟
منظر پر دو فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ ایک طرف روسی اور دوسری طرف مغرب حمایت یافتہ یوکرائنی۔ نظریں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر لگی ہیں۔ نہ ادھر سے روس ہار مانتا نظر آتا ہے اور نہ اُدھر سے مغرب۔ اس سنسنی خیز صورتحال میں ایک نئی خبر کی ہوتی ہے اینٹری۔ فرانسیسی صدر ایمنوول میکرون کی پریس کانفرنس۔ سابقہ افریقی کالونی مالی میں بوریا بسترگول ہونے کا اعلان۔ ارے یہ کیا! ابھی 31 جنوری کو سنا تھا کہ مالی نے فرانسیسی سفیر کو بہتر گھنٹوں میں جہاز پکڑ کر گھر جانے کو کہا تھا۔ اب فرانسیسی صدر اپنے فوجی بھی واپس بلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ فرانس کے مفاد اب ساحل کے علاقے میں جہاں مالی ہے، کون دیکھے گا؟ وہاں تو روس بھی آن دھمکا ہے۔ فرانسیسی تو اپنے ہاں بتیاں جلانے کے لیے بجلی کا اسی فیصد نیوکلیر توانائی سے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر یورینیم مالی کے گردونواح کے علاقوں سے ہی تو آتا ہے۔ اگر بتیاں وہاں کی بند ہوگئیں تو ہم کہاں جانے کے خواب دیکھیں گے؟ ہمارا ذہین طبقہ کس ملک کے لیے ویزے کی قطار میں لگے گا؟
چلو کوئی نہیں ۔ ہم پھر اس پنجابی گانے کا فرانسیسی ورژن سننے کو چلے جایا کریں گے۔ بتیاں بھجائی رکھدی وے ، دیوا بلے۔۔۔۔ اتنا ہی آتا ہے مجھے۔ باقی فرانسیسی میں یاد کروں گا۔
خیر ابھی اس پر بات کرتے ہیں کہ فرانس مالی میں کیا کر رہا تھا اور اس کی ابھی چھٹی کیوں ہوئی ہے۔ اخبارات نے مجھے قصہ کچھ یوں سنایا ہے کہ 2012 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 2085اتفاق رائے سے منظور کی۔ پھر مغربی افریقہ کے ممالک کو کہا گیا چلو بھئی عالمی فوج لے کر مالی چلیں کیونکہ وہاں دہشت گرد گھس آئے ہیں۔ اس اثنا میں فرانس نے کہا، بھئی میں تو مالی کا مائی باپ ہوتا ہوں۔ امریکہ اگر ابا ہے تو میں چاچا ہوں۔ 1892 سے لے کر 1960 تک یہ میری نوآبادیات میں آتا تھا۔ میرے پانچ ہزار شہری ہیں وہاں۔ کوئی کیسے میرے بغیر لوٹ مار…میرا مطلب دہشت گردوں کے صفائے کو جا سکتا ہے۔ پھر جولائی 2013 میں مالی حکومت نے فرانس کو درخواست کر ڈالی۔ سابقہ ابا موجودہ چچا جان خدارا مدد کو آئیں۔ القاعدہ اور دیگر باغی ملک پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔ فرانس نے کہا گو کہ ساحل کے علاقے میں بہت تیل اور یورینیم ہے، لیکن میں بس تمہاری خاطر، انسانوں کو انتہا پسندی و دہشت گردی سے بچانے آیا۔ لیں بھئی یہاں سے جہازوں میں تیل بھرا گیا۔ شاید یہ بھی مالی وغیرہ کہیں سے لوٹا…میرا مطلب منگوایا گیا تھا۔ 1700 فوجی بیٹھے جہازوں میں اور ٹھک کر کے مالی۔ سنا ہے خاصا استقبال ہوا ان کا۔ جانے یہ حکومتی سٹنٹ تھا یا واقعی سادہ لو عوام سمجھے تھے کہ ہمارے نجات درندے۔۔۔ معاف کیجیے گا ،نجات دہندے آ گئے۔ آپریشن سرول کا آغاز ہوا۔ 2014 تک ہمسایہ چاڈ کی مدد سے باغیوں اور جنہیں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے کو مالی سے نکال باہر کیا گیا۔ لیکن معلوم پڑا کہ کشت و خون کا بازار تو نائیجر اور برکینا فیسو تک پھیل چکا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے فرانس نے بتایا تھا کہ آپریشن سرول کامیاب ہو گیا تھا۔ یقین کر لیں بس جو کہا تھا، یہ مت دیکھیں کہ یہ کیسی کامیابی تھی کہ دشمن دیگر ممالک تک پھیل گئے۔ فرانس نے کہا ہے تو بس مان لیں کہ آپریشن کامیاب تھا۔
چونکہ آپریشن کامیاب ہو گیا تھا اس لیے مزید فوجی بھیجے گئے اور کل تعداد پانچ ہزار ایک سو تک پہنچ گئی۔ شاید باقی جشن کے انتظامات کو گئے ہوں گے۔ بہرحال ہمیں جو اخبارات نے کہانی سنائی ہے اس کے مطابق یہاں سے ایک نئے آپریشن کا آغاز ہوا تھا۔ اس کا نام ہے آپریشن بارکہین۔
یہ آپریشن اگلے آٹھ سال چلتا رہا اور اللہ کے فضل سے اب نا کام ہوا ہے۔ اس آپریشن کے دوران بنیادی طور پر تین گروہوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ ایک تواریک باغی، دوسری القاعدہ اور داعش اور تیسرا ایک اور عسکری گروہ جو کہ اس خطے میں بوکوحرام کے نام سے مشہور ہے۔ ان تنظیموں کے جنگجو ٹوٹ کر اپنے الگ گروہ بناتے رہے، صلح نامے ہوتے رہے ٹوٹتے رہے اور گروہ ایک دوسرے میں ضم بھی ہوتے رہے۔ ان سب چیزوں کی تفصیلات اتنی قسم کی ہیں کہ آپ قلیل مطالعے سے کچھ اخذ نہیں کر سکتے۔ ہاں جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ اس خطے کی معدنیات و وسائل پر لوٹ مار ہوتی رہی، بھوک و افلاس ناچتی رہی، لوگ پناہ گزیں ہو کر در بدر ہوتے رہے، لاشیں گرتی رہیں اور اسلحہ بکتا رہا۔ 2020 میں مالی کے صدر ابراہیم گھر کو گئے اور اگست میں نئی حکومت آ گئی۔ 2021 میں اس حکومت کی بھی چھٹی ہوئی اور فوجی راج آ گیا۔ اس راج کے کرتادھرتا تھے کرنل عاصم گوئٹا۔ اخبارات کے مطابق یہاں سے نئے قاتلوں۔۔۔ میرا مطلب نئے کرائے کے جنگجوؤں کی ہوئی اینٹری۔ روسی ویگانار گروپ۔ یہ کیا گروہ ہے، اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ بس اتنا بتا دوں کہ امریکی بلیک واٹر کا روسی پرو ورژن ہے۔ اہل نظر کلنگ مشینز کہتے ہیں اس کے اراکین کو۔ اس کی آمد اعلان تھی کہ ساحل کے خطے میں نیا شیر آ گیا ہے۔ یہ شیر ہے روس۔ اس کے آتے ہی مالی صدر گوئٹا نے شروع کیں دکھانی فرانس کو آنکھیں۔ اب تک فرانس بھی مالی میں خوب پٹ چکا تھا۔ ان پر ان گروہوں کے جنگجوؤں کو تربیت دینے کا الزام تھا جن کو وہ ختم کرنے آیا تھا۔ عوام میں پھیلے فرانس کے خلاف جذبات کو اپنی دکان چمکانے کے لیے استعمال کیا صدر گوئٹا نے۔ فرانس ان حضرت کو کہتا تھا کہ بھئی کرواؤ انتخابات اور اقتدار کرو حوالے نئی حکومت کے۔ وہ کہتے تھے چل بھئی لے اپنی راہ۔ کون نہیں جانتا تھا کہ صدر کے لہجے کیوں بدلے ہوئے ہیں۔ صدر کی ہٹ دھرمی سے تنگ آ کر فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہہ ڈالا۔ مالی حکومت کنٹرول سے باہر ہے۔ یہ تو نا جائز ہے۔
بس اس کا سننا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو مالی حکومت کی جانب سے بلایا گیا اور کہا گیا۔ بہتر گھنٹے ہیں۔ جہاز پکڑیں اور جائیں گھر۔ مالی کے اس غیر متوقع اقدام نے کیاسب کو حیران۔ لیکن بہر حال سفیر کو باندھنا پڑا اپنا بوریا بستر۔ صرف سفیر کو ہی نہیں بلکہ پوری بارات کو۔۔۔ میرا مطلب جتنے بھی فرانسیسی فوجی موجود تھے۔ یہ سفیر والا واقعہ اکتیس جنوری کا ہے۔ اب دو تین دن پہلے فرانسیسی صدر ایمنول میکرون کی پریس کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں انہوں نے کہا کہ ہم مالی سے بوریا بسترسمیٹ رہے ہیں۔ کیوں کہا انہوں نے یہ۔ اس لیے کہ وہاں نیا شیر آ گیا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی اور چین بھی وہاں موجود ہیں۔
لیں بھئی کہانی ختم ہوئی یہاں پر ہی۔ عالمی منظر نامے پر اور بکھری کہانیاں پڑھنے کے لیے ہمارے ساتھ جڑے رہیے۔ ملتے ہیں اگلے مضمون میں۔