فراق کا اکیلا پن اور چور کی آمد
فراق صاحب کی ساری زندگی تنہائی میں گزری ۔ آخری زمانے میں تو گھر میں نوکروں کے سوا اور کوئی نہیں رہتا تھا۔ کبھی کبھی تو تنہا اتنے بڑے گھر میں خاموش بیٹھے ہوئے سگریٹ پیا کرتے تھے۔خاص طورسے شام کو یہ تنہائیاں دردناک حد تک گہری ہوجاتی تھیں۔
ایک ایسی ہی شام کو نوکر بازار گیا ہوا تھا ۔ ایک غنڈہ موقع غنیمت سمجھ کر دبے پاؤں گھر میں گھس آیا۔اس نے چاقونکال کر فراق صاحب کے سینے پر رکھ دیا اور رقم کا طلب گار ہوا۔
فراق صاحب اس کو چپ چاپ دیکھتے رہے پھر بولے:
’’اگر تم جان لینا چاہتے ہو تو میں کچھ نہیں کہناچاہتا ۔ اگر روپیہ چاہتے ہو تو وہ میرے پاس نہیں ہے ۔ نوکر بازار گیا ہوا ہے...بیٹھ جاؤ...ابھی آجائے گا تو تمہیں روپیہ دلادوں گا۔‘‘
حملہ آور بیٹھ گیا فراق صاحب نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر بولے:
’’اچھا ہوا تم آگئے ۔میں بڑی تنہائی محسوس کررہا تھا۔‘‘