فراق یار کے لمحے گزر ہی جائیں گے
فراق یار کے لمحے گزر ہی جائیں گے
چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر ہی جائیں گے
تمام رات در میکدہ پہ کاٹی ہے
سحر قریب ہے اب اپنے گھر ہی جائیں گے
تو میرے حال پریشاں کا کچھ خیال نہ کر
جو زخم تو نے لگائے ہیں بھر ہی جائیں گے
میان دار و شبستان یار بیٹھے ہیں
جدھر اشارۂ دل ہو ادھر ہی جائیں گے
جلوس ناز کبھی تو ادھر سے گزرے گا
کبھی تو دل کے مقدر سنور ہی جائیں گے
یہی رہے گا جو انداز نا شناسائی
تمہارے چاہنے والے تو مر ہی جائیں گے
ابھی چھڑی بھی نہ تھی داستان عہد وفا
کسے خبر تھی کہ وہ یوں مکر ہی جائیں گے
جمال یار کی نادیدہ خلوتوں میں ظہیرؔ
اگر گئے تو یہ آشفتہ سر ہی جائیں گے