فکشن کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟
ڈی ایچ لارنس کہتا ہے، ’’میں زندہ انسان ہوں اور جب تک میرے بس میں ہے میرا ارادہ زندہ انسان رہنے کا ہے۔ اس لیے میں ایک ناولسٹ ہوں اور چونکہ میں ناولسٹ ہوں اس لیے میں اپنے آپ کو کسی سنت، کسی سائنٹسٹ، کسی فلسفی، کسی شاعر سے برتر سمجھتا ہوں، جو زندہ انسان کے مختلف حصوں کے بڑے ماہر ہیں مگر پورے انسان تک نہیں پہنچتے۔ ناول زندگی کی ایک روشن کتاب ہے۔ کتابیں زندگی نہیں، یہ صرف ایتھر ہیں، ارتعاشات ہیں، لیکن ناول ایک ایسا ارتعاش ہے جو پورے زندہ انسان کے اندر لرزش پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو شاعری، فلسفے، سائنس یا کسی اور کتابی ارتعاش کے بس کی بات نہیں۔‘‘
لارنس کے اس اقتباس سے سوفی صدی اتفاق ضروری نہیں، مگر اس میں ناول کی اہمیت کی طرف جو اشارہ ہے اور ناول کی وسعت، دائرہ کار، بلندی، گہرائی اور عظمت کا جو احساس ہے اسے ضرور دھیان میں رکھنا چاہئے۔
فکشن کا لفظ ناول اور افسانہ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں فکشن کے لیے افسانوی ادب کی اصطلاح بھی برتی گئی ہے مگر چونکہ افسانہ ہمارے یہاں مختصر افسانے کے لیے مخصوص ہو گیا ہے، اس لیے افسانوی ادب کہا جائے تو پڑھنے والے کا دھیان مختصر افسانے کے سرمائے کی طرف جائےگا۔ ہم نہ صرف شارٹ اسٹوری کے لیے مختصر افسانے کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں بلکہ لانگ شارٹ اسٹوری کے لیے طویل افسانے کی اصطلاح بھی برتتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک ناول اور افسانے دونوں کے سرمائے کے لیے فکشن اور فکشن کا ادب استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انگریزی کی ایسی اصطلاحیں جن کے مترادف الفاظ ہمارے یہاں نہ ہوں اور جو ہمارے صوتی نظام کے مطابق ہوں، انھیں بجنسہ لے لینے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔
تمام نقادوں کا اس پر اتفاق ہے کہ ہمارے یہاں شاعری کا جو سرمایہ ہے، اس کے مقابلے میں ناول کا سرمایہ بہت کم ہے۔ یہاں مقدار کا ہی سوال نہیں معیار کا بھی سوال ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں شاعری کے سرمائے کی روایت تقریباً پانچ سو سال سے ملتی ہے، ناول کی روایت سو سال سے زیادہ نہیں۔ ہاں ہمارے یہاں ناول سے پہلے داستانوں کا ایک سرمایہ موجود ہے جس کی عظمت کا اعتراف ضروری ہے مگر جو ایک مختلف فن سے تعلق رکھتا ہے۔ ناول نو عمر ہے تو اس پر تنقید بھی نو عمر ہے۔ یہ بات افسوس کے قابل ہے مگر ماتم کے قابل نہیں۔ رینی ولیک اور آسٹن وارن نے Theory of Literature میں لکھا ہے، ’’ناول کے متعلق ادبی نظریہ اور تنقید کیفیت اور کمیت دونوں کے لحاظ سے شاعری کے نظریے اور تنقید سے کمتر ہیں۔‘‘
ناول کا کوئی نقاد ارسطو، جانسن اور کولرج یا آرنلڈ اور ایلیٹ کے درجے کا نہیں ہے۔ مغرب میں بھی ناول کی صنف اور اس کی انفرادیت کا احساس زیادہ سے زیادہ دو سو سال کا ہوگا۔ ہمارے یہاں تو نذیر احمد کے تمثیلی قصے ناول کے لیے فضا سازگار کرتے ہیں۔ سرشار کہتے ہیں کہ ’’میاں آزاد کا ہر شہر و دیار میں جانا اور وہاں کی بُری رسموں پر جھلانا ناول کا عمدہ پلاٹ ہے۔‘‘ مگر وہ ناول کے ضبط و تنظیم کے فن سے واقف نہیں، ہاں کرداروں کا ایک نگار خانہ اور معاشرت کا ایک مرقع ضرور پیش کر دیتے ہیں۔ شرر ناول لکھنے کا عزم کرتے ہیں مگر رومان لکھتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اردو کا پہلا ناول امراؤ جان ادا ہے۔ پریم چند نے جو در اصل افسانہ نگار تھے کچھ اچھے ناول لکھے اور ناول کی روایت کو آگے بڑھایا اور اسے وسعت بھی عطا کی مگر وہ عظیم ناول نگار کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے اچھے ناول، ’میدان عمل‘ اور ’گئو دان‘ ہی ہیں۔ پریم چند کے بعد اس فن میں خاصی ترقی ہوئی، اور چھوٹے بڑے ناولوں میں ’لندن کی ایک رات‘، ’ٹیڑھی لکیر‘، ’ایسی بلندی ایسی پستی‘، ’آگ کا دریا‘، ’آنگن‘، ’اداس نسلیں‘، ’علی پور کا ایلی‘، ’ایک چادر میلی سی‘ اور ’خدا کی بستی‘ میرے نزدیک اردو کی قابل فخر ناولیں کہی جا سکتی ہیں۔ یہ فہرست مکمل نہیں ہے اور یہاں فہرست سازی میرا مقصد بھی نہیں۔ صرف یہ عرض کرنا ہےکہ اتنے تھوڑے سے سرمائے کے پیش نظر اگر ناول کے فن پر تنقید کم ہو اور وہ تنقید بھی تاریخی اہمیت زیادہ رکھتی ہو، تنقیدی کم تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
اردو میں افسانہ ناول کے مقابلے میں نو عمر ہے مگر اس نے بلاشبہ ان پچاس ساٹھ سال میں کافی ترقی کی ہے مگر یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ ہمارے یہاں افسانے کی اتنی ترقی کیوں ہوئی اور ناول کی کیوں نہیں ہوئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ناول کی ترقی کے لیے نثر کی جس پختگی کی ضرورت ہے وہ بہت دیر میں وجود میں آئی اور غزل کے اثر سے چونکہ مجموعی طور پر ہمارا فنی شعور چھوٹے پیمانے پر تصویریں بتانے یا Miniature painting سے زیادہ مانوس ہے، اس لیے مختصر افسانے میں اس نے زیادہ آسودگی پائی۔ ناول نسبتاً بھاری پتھر تھا اور اس کے مطالبات بھی زیادہ تھے اس لیے ان سے عہدہ برآ ہونا اتنا آسان نہ تھا۔
ناول کے لیے فضا اس وقت سازگار ہوتی ہے جب اول تو نثر کے تعمیری حسن کا پورا احساس ہو، دوسرے ہر قسم کی نثرے کے اچھے نمونے سامنے آچکیں، تیسرے شخصیت اور اس کی عکاسی بذات خود ایک کارنامہ سمجھی جائے، چوتھے ایک ایسا متوسط طبقہ وجود میں آچکا ہو جس میں خواندہ لوگوں کی خاصی تعداد ہو، جسے اپنی اہمیت کا احساس ہو، جو اپنے اخلاق و عادات کو عزیز رکھتا ہو، جس کے پاس کچھ فرصت ہو، مگر جس کا نقطۂ نظر کاروباری ہو، جو اپنے سے نیچے تک کے بھدے اور بھونڈے طریقۂ زندگی سے اور اپنے سے اوپر کے طبقے کے بظاہر ناکارہ پن سے اپنے کو ممتاز سمجھتا ہو۔
اس متوسط طبقے سے ناول کو سرکار ہوتا ہے۔ کبھی اس کی امید و بیم کی معروضی عکاسی کر کے، کبھی جین آسٹن کی طرح متوسط طبقے کے طرز زندگی کا تجزیہ کرکے، کبھی فلابیر کی طرح اس کے اخلاق پر ضرب لگا کے یا ایک متوسط طبقے کے پس منظر میں اس طرز زندگی کے متبادل طریقے تعمیر کر کے جیسے ایمبلی برانتے اور کانریڈ کے یہاں ملتے ہیں، پانچویں جب چھپے ہوئے حروف کی اتنی عادت پڑھنے والوں کو ہو جائے کہ وہ تحریر کے آہنگ کو دیکھ سکیں اور اس سے لطف لے سکیں۔ تحریر میں تقریر اور اس کی خطابت کا لطف تلاش نہ کریں۔ چھٹے جب نثر اتنی پختہ ہو جائے کہ وہ شاعری سے زیور نہ مانگے بلکہ اپنے حسن کی رعنائی پر نازاں ہو سکے اور علمی اور فلسفیانہ یا سیاسی یا تاریخی شعور کی آئینہ داری کر سکے۔
ناول میں انفرادی تجربے کی بنیادی اہمیت ہے۔ یہ تعمیم کو شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ یہ انفرادی جذبے کے خام مواد سے اپنا تانا بانا تیار کرتی ہے اور اس سے فکر کے لئے لباس مہیا کرتی ہے۔ محض خیالات ناول میں زیادہ اہم نہیں لیکن اگر ذہنی فضا ایسی ہے کہ انفرادی تجربہ حقیقت سے ہمکنار نظر آتا ہے، ناول فلسفیانہ بھی ہو سکتی ہے۔
ناول کا موضوع انسانی رشتے ہیں، اس لیے اس میں حقیقت مقررہ، پہلے سے طے شدہ عقائد کے مجموعے کی شکل میں نہیں بلکہ حقیقت کے اس تجربے کی شکل میں ہوتی ہے جس کا ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس لیے ناول پر کوئی نظریہ لاد اجائے تو ناول ناول نہیں رہتا جیسے ویلس کے یہاں۔ ویسے اس میں فن کے آداب کے مطابق ہر نظریے کی عکاسی کی گنجائش ہے۔ ناول تہذیب کا عکاس، نقاد اور پاسبان ہے۔ کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ وہاں کی شاعری سے ہوتا ہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
میں نے جرمن، روسی، فرانسیسی، انگریزی، امریکی تہذیبوں کی روح کو ان ملکوں کے ناولوں کی مدد سے بہتر سمجھا ہے، انہیں سے یہ اندازہ ہوا کہ ان ملکوں میں سماج کس طرح بدلا ہے۔ برادری اور خاندان کے تصور میں کیا انقلاب ہوا ہے۔ انفرادیت پر کیوں زور بڑھا ہے۔ طبقے کس طرح بدل رہے ہیں اور شہروں کی کشش کیا رنگ لا رہی ہے، پھر ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرد کے ذہن میں یا باطن میں کیا انقلاب ہوا ہے۔ عقائد کس طرح تلیٹ ہو رہے ہی۔ ایک سیکولر اخلاقیات کس طرح جنم لے رہی ہے۔ شخصیت کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے اور پیشے یا سماج کا جبر اسے کس طرح خانوں میں بانٹ رہا ہے۔ انھیں سے یہ عقدہ بھی کھلا کہ نفسیات اور سوشیالوجی اور سائنسی طریقۂ کار نے تہذیب پر کس طرح اثر کیا ہے۔ ہیوم، برک، مارکس اور فرایڈ کے کیا اثرات پڑے ہیں۔ گویا ذہنی تاریخ ناولوں میں محفوظ ہو گئی ہے۔
ناول کو جب جدید ایپک کہا گیا تو ظاہر ہے کی ایپک کے فن سے زیادہ اس کی وسعت اور اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ناول ایپک کی طرح مصنف کی ہر وقت موجودگی گوارا نہیں کرتا بلکہ ناول کے کرداروں کی اپنی زندگی اس قدر اہم ہو جاتی ہے کہ بالآخر فن کار کی اپنی شخصیت غائب ہو جاتی ہے۔ جیمس جوائس نے اس انتہا کو بڑی خوبی سے اس طرح بیان کیا ہے،
’’فن کار کی شخصیت پہلے ایک پکار، ایک دھن، یا ایک موڈ (غنائیہ میں) اور پھر ایک سیال اور سبک تاب بیان (ایپک میں) اور بالآخر اتنی لطیف ہو جاتی ہے کہ ڈرامے میں بالکل غائب ہو جاتی ہے۔‘‘
ناول کی اہمیت پر اب کچھ روشنی پڑی ہوگی۔ اس لیے یہ نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صنف ناول کے متعلق چند اصولی باتیں کہہ دی جائیں تاکہ ہمیں اپنے سرمائے کو پرکھنے میں آسانی ہو اور ہم آم سے املی کے مزے کی توقع نہ کریں نہ احمد کی ٹوپی محمود کے سر رکھ دیں۔ اس سلسلے میں مارس شروڈر (Maurice Schroeder) نے ایک مضمون لکھا ہے۔ ناول کی عام طور پر تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ نثر میں ایک افسانوی بیان ہے جو قابل لحاظ طوالت رکھتا ہے،
A fictional narrative in prose of substantial length.
اس تعریف میں ناول کا جس طرح ارتقا ہوا ہے، اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ناول کی تعریف کے لیے ضروری ہے کہ ادبی تاریخ کو ذہن میں رکھیں۔ خارجی روپ کا مطالعہ کریں اور ناولوں کے مواد کو بھی ملحوظ رکھیں۔ ناول ایک بیانیہ فارم ہے۔ اس میں ایک مثالی عمل ہوتا ہے جس کی موضوعی اہمیت ہے اور جو اس کے ساتھ مخصوص ہے۔ ناول معصومیت کے عالم سے Typical تجربے کی منزل تک کے سفر کا بیان ہے۔ اس نادانی سے جو بڑے مزے کی چیز ہے، یہ آدمی کو زندگی کے واقعی روپ کے عرفان تک لاتی ہے۔ ناول ظاہری حالت اور حقیقت میں امتیاز سے سروکار رکھتی ہے، ناول جس حقیقت تک ہمیں لے جاتی ہے اس سے اس کا تاریخی رشتہ ہے۔ یہ بورژوا زندگی، تجارت اور جدید شہروں کی زندگی ہے۔ ناول کو جس حقیقت نے جنم دیا وہ فالسٹاف میں سب سے پہلے جھلکی۔ ناول کا ہیرو ازالۂ فریب کے ایک سلسلے سے گزرتا ہے، وہ ایک طفلانہ امید سے ایک قانع عقل تک سفر کرتا ہے۔
موضوع کے لحاظ سے ناول رومان سے بالکل مختلف ہے۔ رومان کا ہیرو اپنے کو ہیرو ثابت کرتا ہے۔ ناول کے ہیرو کا اینٹی ہیرو ہونا زیادہ قرین قیاس ہے۔ ایسا ہیرو جو تمام صفات کا مجموعہ نہیں ہے، ناول کا عمل (ایکشن) رومان کے عمل سے ملتا جلتا ہے۔ ناول کے ہیرو کے سفر کو نارتھ روپ فرائی نے quest یا تلاش کا نام دیا ہے جو ایک محدود فضا سے ایک وسیع فضا کے لیے ہے۔ یہ تلاش زماں و مکاں دونوں میں ہو سکتی ہے، اس جستجو کی منزل آئے یا نہ آے مگر ناول کا ہیرو آخر میں یہ رمز پا لیتا ہے کہ ہیرو ازم کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے اور وہ خود بھی ایک معمولی آدمی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے ناولوں کا انجام المیہ اور سارے رومانوں کا طربیہ ہوتا ہے۔ ناول میں ہیرو اس لیے کامیاب ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور اس نے اپنے غرور کو ترک کر دیا ہے۔ ناول میں یہ زوال اچھا ہے کیونکہ اس طرح زندگی کے حقایق کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔
ناول کا موضوع دراصل ایک ذہنی تعلیم کی تکمیل ہے۔ ناول کے ایک سرے پر رومان ہے اور دوسرے پر فلسفیانہ قصے جیسے کا ندید یا گلیور کا سفرنامہ۔ ناول رومان کے مقابلے میں فلسفیانہ قصے سے قریب تر ہے مگر جب کہ فلسفیانہ قصوں میں ازالۂ فریب افکار کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ ناولوں میں منطق کے ذریعے۔ ناول اور فلسفیانہ قصے دونوں رومان سے اس لیے گریزاں ہیں کہ رومان زندگی کو تخیل کے دھندلکے کی مدد سے دیکھتاہے۔ یہاں شخصی ترجمانی ہوتی ہے اور یا تو اس میں جذبات کا رنگ ہوتا ہے یا اساطیر کی شاعری کی مدد سے اس میں ایک طلسماتی فضا پیداکی جاتی ہے۔
ناول کا عمل ۔ Demythicization کا عمل ہے۔ ناول ازمنۂ وسطی کے رومانوں سے پیدا ہوا اور اپنے فارم کے لحاظ سے اور صنفی لحاظ سے یہ رومان کے خلاف ہے۔ رومانی حسیت کی اس میں گنجایش نہیں۔ ڈان کویکزوٹ پن چکیوں کو دیو سمجھتا ہے۔ دیو کو پن چکی بھی کہنے والے مل جائیں گے لیکن سانکو پینزا پوچھتا ہے کیسے دیو، (What Giants) اس بنیادی سوال میں ناول اور رومان کا فرق مضمر ہے۔ ناول ازالۂ فریب، شکستِ طلسم اور کنایہ یا ہجو ملیح سے کام لیتا ہے۔ جیسے جیسے ناول ترقی کرتا گیا اس میں یہ کنایہ بڑھتا گیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دراصل ناول ایک کنایاتی افسانوی فارم ہے۔ ناول اور رومان دونوں میں انسانی صورتِ حال بیان کی جاتی ہے، افکار یا خیالات سے بحث نہیں ہوتی۔ دونوں میں تجرباتی حقیقت سے بحث ہے، نظریاتی سوالوں سے نہیں۔
ناول اور فلسفیانہ قصے دونوں میں رومانی حسیت کو شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو چیز رومانوں کو دل کش بناتی ہے وہ ناول کے لیے زہر قاتل ہے۔ طلسمی اور عجیب و غریب کی ناول میں گنجایش نہیں۔ ناول اور فلسفیانہ قصے دونوں میں ایک معلمانہ مقصد ہوتا ہے۔ در اصل ناول اتنا مقبول نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ رومان آج بھی زیادہ مقبول ہے کیونکہ یہ آج بھی انسان کے رباب کے بہت سے تاروں کو چھیڑتا ہے۔ رومان در اصل ایک فراری آرٹ ہے۔ ناول انسان کو حقیقت تک واپس لے جانے میں رومان کی بنیاد سے انکار کرتا ہے۔ ناولسٹ اپنی افسانوی دنیا کا خدا ہے جو اوپر سے اپنے کرداروں کو دیکھتا ہے اور ان کی حرکات کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ ناول کا ہیرو ایک اور آدم ہے جو بچپن کی جنت سے نکل آیا ہے، بچپن کی یہ جنت رومان کی اقلیم ہے۔
نارتھ روپ فرائی نے ہیرو کے لحاظ سے جو درجہ بندی کی ہے، وہ ہمارے لیے معنی خیز ہے۔ سب سے اوپر ایسے ہیرو ہیں جو انسان نہیں دیوتا ہیں۔ اس کے نیچے ایسے ہیروں ہیں جو انسان ہیں مگر ہم جیسوں سے زیادہ طاقت ور، عقلمند اور چالاک۔ اس کے نیچے ہماری طرح کے انسان اور آخر میں وہ ہیرو ہیں جنھیں ہیرو کہنا ہی مشکل ہے جو عام لوگوں سےکم عقل اور کم صلاحیت کے مالک ہیں۔ ریفرے فالسٹاف اور خوجی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ کوئی رومان تسلی بخش نہیں ہو سکتا، اگر اس کے ہیرو ہم جیسے ہوں اور اسی منطق سے کسی ناول میں رومانی یا ایپک صفات کا ہیرو کھپ نہیں سکتا۔
فرائی یہ تسلیم کرتا ہے کہ مکمل ناول میں رومان کے عناصر بھی ہوتے ہیں جس طرح رومان میں ناول کے عناصر مل سکتے ہیں مگر ناول کی اپنی حقیقت نگاری سب سے بنیادی چیز ہے، اس کے علاوہ وہ دو اور اہم عناصر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک اعتراف جس کی وجہ سے خود نوشت کے نقوش ناول میں درآتے ہیں۔ دوسرے anatomy جس کے ذریعے سے فلسفیانہ اظہار خیال کی گنجائش نکل آتی ہے۔ فرائی کے نزدیک یولیسس اس لیے مکمل ایپک ہے کہ اس میں یہ چاروں عناصر بڑی خوبی سے جمع ہو گئے ہیں۔
ہمارے یہاں موضوع کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اگر کسی سیاسی، سماجی، فلسفیانہ یا اخلاقی موضوع پر ناول لکھا گیا تو موضوع کی وجہ سے ہی اسے سراہا جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتاکہ ناول سیاسی یا سماجی دستاویز بن گیا یا فلسفیانہ رسالہ یا اخلاقی وعظ، ناول نہ رہا۔ حد سے بڑھا ہوا سائنسی ایجادات سے شغف یا مستقبل سے دلچسپی ناول نگار کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ ویلس، ہنری جیمس کے اعلیٰ درجوں کے ناولوں سے بہت خفا تھا، حالانکہ اس کے اپنے ناول چونکہ انسانی رشتوں سے زیادہ اس کے مخصوص نظریۂ حیات کی ترجمانی کرتے ہیں اس لیے اسی کے الفاظ میں اسے صحافت میں عافیت ملی۔ اسی طرح صرف ہیئت کے تجربے، فلمی ٹیکنیک یا فلیش بیک یا اخباروں کی سرخیوں پر مشتمل صفحات بھی ناول کو قابل قدر نہیں بناتے۔ مجھے صرف ایک تجربہ اس سلسلے میں قابل ذکر معلوم ہوتا ہے۔
سال بیلو کے ناول ہرزاگ کا ہیرو، ہر مسئلے پر خط لکھتا ہے جو بھیجے نہیں جاتے، یہ خود کلامی کی ایک صورت ہے یا اس طرح ناول نگار اپنے ہیرو کے ذریعے سے الجھنوں کو سلجھانے کی ایک کوشش کرتا ہے جو ناکام ہے کیونکہ خط صرف لکھے جاتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ناول ہی بنیادی اہمیت کا فن ہے۔ اس بات کو مارک شورر (Mark shorer) نے اپنے ایک مضمون تیکنیک ایک دریافت (Technique as discovery) میں بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کیٹس کے فارمولے حسن اور صداقت کو اس طرح بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ مواد یا مواد کا نام لینا کافی نہیں۔ مواد کی بات تجربے کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ ہمیں حاصل شدہ مواد Achieved Content کی بات کرنی چاہیے۔ حاصل شدہ مواد ہی فارم ہے جو فن پارے کی خصوصیت ہے۔ مواد اور تجربے اور حاصل شدہ مواد اور آرٹ میں جو فرق ہے، اسی کو تیکنیک کہتے ہیں۔
تیکنیک کے دو پہلو ہیں۔ ایک تجربے کی نوعیت بیان کرنے میں الفاظ کا انتخاب اور استعمال، یعنی زبان کا تخلیقی استعمال اور چونکہ یہاں نثر کا سوال ہے اس لیے اس تخلیقی استعمال کے ساتھ نثر کے تعمیری اظہار کے ساتھ پورا انصاف، دوسرے نقطۂ نظر کی موجودگی جو نہ صرف ایک ڈرامائی حد بندی کرتی ہے بلکہ ایک طرح موضوع کو بھی متعین کرتی ہے۔ گویا ناول میں مواد اور ہیئت علیحدہ نہیں ہوتے۔ بلکہ دونوں ایک دوسرے میں حل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی من تو شدم تو من شدی والی بات ہے۔ ہاں اسی حل کو تیکنیک کہتے ہیں۔
جب تک زندگی کو طبیعیاتی علوم کے دیے ہوئے قوانین کی مدد سے سمجھا جاتا رہا، ہر چیز میں باقاعدگی، تناسب، تنظیم، پلاٹ کی چستی پر زور دیا گیا۔ جب یہ اندازہ ہوا کہ کائنات ایک ریاضی کا فارمولا نہیں ہے بلکہ وہ ایسی سڑک ہے جس پر کچھ بلب روشن ہیں، بلبوں کے نیچے اور کچھ دور تک روشنی ہے اور بیچ میں اندھیرا۔ اس لیے اب پلاٹ پر اتنا زور نہیں جتنا پہلے تھا۔ فاسٹر نے کہا تھا کہ پلاٹ ناول کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اب پلاٹ اور کردار نگاری دونوں کے متعلق ہمارا تصور بدل گیا ہے، نفسیات کے علم اور لاشعور اور تحت شعور کے مطالعے نے کردار کے باطن کو روشن کر دیا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک ہم آئس برگ کا اندازہ سمندر کی سطح سے اوپر برف دیکھ کر لگاتے تھے۔ اب اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کا تین چوتھائی حصہ سمندر کے نیچے ہے۔ یہی حال انسانی فطرت کا ہے جو صرف خارجی حالات کی مدد سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اس کے لیے انسان کی پوری تاریخ اور ذہن کی ساری بھول بھلیاں میں جھانکنا پڑتا ہے۔
شعور کی رو کےعلم نے ناول کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا، جیمس جوائس کے یولیسس کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں ڈیلن کا ماحول بھی ہے اور شعور کی رو بھی، یورپ کے ذہنی سرمائے سے استفادہ بھی اور ان سب چیزوں کو اساطیر کی مدد سے گہری خصوصیت عطا کرتے اور آج کے انسان کو ابدی مسائل کی جستجو میں سرگرم دکھانے کی ایک کامیاب کوشش بھی۔ ناول کا بڑا سرمایہ حقیقت نگاری (Realism) کے ذیل میں آتا ہے مگر اس کے ارتقا میں علامتی اظہار کی بھی اہمیت مسلم ہے۔
علامتی ناول، حقیقت پسند ناول کے بعد وجود میں آیا مگر اس کا رشتہ فطرت کے ایک ناقابل انکار قانون کی بنا پر رومان سے مل جاتا ہے۔ یہ رشتہ جدید ادب کے دوسرے شعبوں میں بھی واضح ہے جہاں تخیل کی اہمیت ہے۔ جدید ناول میں جوایس، پروست، فاکنز، مان، کافکا، کانریڈ کی جو اہمیت ہے اس سے کون کافر انکار کر سکتا ہے۔ ان کے فن میں علامت اور اشارے کی جو مرکزیت ہے، وہ ظاہر ہے۔ علامت کسی غیر مرئی شے کی نشانی ہے۔ علامت سازی انسان کی فطرت ہے۔ یہ اس دور کا ہی عجوبہ نہیں ہے۔ وہایٹ ہیڈ علامت پرستی یا اشاریت کو perception کا طریقہ سمجھتا ہے جس کی وجہ سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ کیسی رر (Cassirer) کہتا ہے کہ آدمی ایک علامتی جانور ہے جس کی زبانیں، اساطیر، مذاہب، سائنس اور آرٹ سب علامتی فارم ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنی اصلیت کو پروجیکٹ کرتا ہے اور اسے سمجھتا ہے۔ وہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ ان شکلوں کے علاوہ جو اصلیت ہے وہ مد فاضل ہے۔
ایک بنیادی مفہوم میں علامت پسندی ہر دور کی خصوصیت رہی ہے۔ ہاں اس دور میں علامت کا استعمال شعوری اور بالارادہ ہو گیا ہے، اس لیے علامتی ناول اور افسانے کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ترشے ترشائے، واضح، متناسب، صاف ستھرے، روز روشن کی طرح عیاں فن کو دھندلا، طلسمی، خواب آلود اور ہر شے کو کچھ اور بنا دیتی ہے۔ ہاں اس کے باوجود ناول کی اصلی اور بڑی روایت یعنی حقیقت پسندی ختم نہ ہوگی، بلکہ علامت پسندی کے دوش بدوش جاری رہےگی۔ اسے اس قسم کی لامعنویت کو بھی اپنانا ہوگا جو Theatre of the Absurd میں ملتی ہے اور جس کی وجہ سے’’گودو کے انتظار میں‘‘ کچھ حقیر انسان ایک فنی عظمت اور معنویت پیدا کر لیتے ہیں۔
ناول چونکہ ہمارے یہاں مغرب سے آیا ہے، اس لیے ناول کے ارتقا کی کہانی ہمارے یہاں بھی اسی طرح دہرائی جا رہی ہے اور دہرائی جاتی رہےگی۔ ناول کے عالمی مزاج اور کردار کو بیرونی شے کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا، جس طرح یہ کہہ کر کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ دیہات میں رہتا ہے، شہروں کی طرف میلان سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، ابھی حال میں ۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے جو اعداد و شمار شایع ہوئے ہیں، ان سے نہ صرف شہروں کی طرف تیزی سے بڑھنے کی رفتار کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب کے صنعتی ملکوں کی طرح بڑے شہروں کے اور بڑے ہونے کا میلان بھی ہے اس لیے اردو کا ناول موجودہ دور کی پرپیچ، ہنگامہ خیز، اپنے سے بیزار اور دنیا سےنالاں، شہری زندگی سے اور اس کی نت نئی تعبیروں اورتفسیروں سے، کس طرح دامن بچا سکتی ہے۔
آزادی کے بعد ہمارے یہاں ناول پر توجہ زیادہ ہوئی ہے مگر ابھی قرار واقعی توجہ نہیں ہوئی۔ کچھ تو اس کی وجہ یہ ہےکہ جس طرح ایجاز و اختصار کی عادت غزل میں زیادہ ظاہر ہوئی اور نظم کی تعمیر کی طرف اتنی توجہ بعد میں ہوئی، اسی طرح نثر میں مختصر افسانے نے اپنی طرف زیادہ توجہ مبذول کرا لی اور چاند تاروں کی روشنی کے بجائے شہاب ثاقب کی چمک زیادہ پرکشش نظر آئی۔ دوسرے ہمارے یہاں متوسط طبقہ دیر میں ابھرا اور اسی لیے بنگالی اور مراٹھی اور دوسری زبانوں میں ناول کا سرمایہ شاید زیادہ وقیع ہے۔ تیسرے حقیقت پسندی جو کسی سیاسی یا مذہبی شکنجے کی پابند نہیں، ہمارے یہاں عام نہیں ہو سکی۔
ہماری تنقید میں بھی نظر سے زیادہ نظریے پر زور رہا اور بجائے بار بار دیکھنے کے ایک نظر دیکھنے کو کافی سمجھا گیا۔ ایک لمحے کی مصوری، ایک کیفیت کی عکاسی، ایک کردار کی مرقع کشی، بہرحال لمحوں کی برات، کیفیات کے زیر و بم اور کرداروں کے نگار خانے سے آسان ہے۔ میں یہ تو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ افسانہ اعلیٰ ادب نہیں ہے، وپاساں، چیخوف، ہینری، مینسفلڈ اور خود ہمارے یہاں پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر اور اس دور کے بہت سے افسانہ نگاروں کے قابل قدر کارناموں سے کیسے انکار ممکن ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ جس طرح غزل کی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے اور غزل کے ہر دور میں بدلتے ہوئے رنگ کو مانتے ہوئے، میرے نزدیک اردو شاعری کا مستقبل غزل سے نہیں نظم سے وابستہ ہے، اسی طرح افسانے کی گہرائی اور تاثیر اور اس کی نشتریت کو تسلیم کرتے ہوئے اردو فکشن کا مستقبل اس کے ناول سے جانچا جائےگا۔
اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑےگا کہ کہ آج ہمارا افسانہ جس منزل میں ہے، ہماری ناول وہاں تک نہیں پہنچی۔ ہماری ناول ابھی حقیقت پسندی کی معراج کو نہیں پاسکی اور افسانے میں علامتی اور تجریدی اظہار کو کامیابی سے برتا جانے لگا ہے۔ افسانوں کی ترقی اور مقبولیت میں رسالوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ناول کو یہ سہولت میسر نہیں اور بالاقساط ناول اب اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی طرح پڑھنے والوں میں مقبول نہیں ہوتے۔ ناول کی کمی کا ایک سبب خالص اقتصادی بھی ہے۔ ناول لکھنے کے لیے فن کار کو پورا وقت چاہیے۔ افسانہ اس سے اتنا مطالبہ نہیں کرتا۔ اگر ہمارے بعض افسانہ نگاروں کو اپنے فن کی طرف توجہ کرنے کے لیے کچھ معاشی آسودگی نصیب ہوتی اور وہ اپنے فن پر زیادہ توجہ صرف کرتے تو انھیں افسانہ نگاروں میں سے کچھ لوگ اچھے ناول بھی لکھتے۔
اردو میں سستے ادب کی مانگ کافی ہے، اچھے، صحت مند اور سنجیدہ ادب کو پڑھنے والوں کا حلقہ بہت مختصر ہے۔ حلقہ مختصر تو ہر زبان میں ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں جتنا مختصر ہے اتنا شاید کہیں نہیں ہوگا۔ پھر اس مختصر حلقے کو ہمارے نقادوں نے اور محدود کر دیا ہے جو طرفداری کے زیادہ مرتکب ہوتے ہیں، سخن فہمی کے پھیر میں نہیں پڑتے۔ ہماری تنقید میں نظریے کی آمریت بہت زیادہ ہے۔ مارکس کے ماننے والے فرائڈ کو مشکل سے ماننے پر تیار ہوتے ہیں۔ وہ تو وجودیت کے روز افزوں اثر کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ زندگی کی طرح فن میں بھی حقایق سے آنکھیں چرانا خطرناک ہے۔ مثال کے طور پر بیدی کی عظمت کا اعتراف ہوا ہے مگر کما حقہ اعتراف نہیں ہوا اور منٹو جس پائے کا فن کار ہے اس کی طرف اس کے بعض موضوعات سے شغف کی وجہ سے بیشتر نقادوں کا دھیان ہی نہیں گیا۔ ’آگ کا دریا‘ پر پاکستان میں لے دے ہوئی تھی۔ سیتا ہرن کے مسودے کو ہندوستان کے ایک ناشر چھاپنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
ہمارے یہاں گو تقریر و تحریر کی آزادی ہے مگر فن کار کو ابھی تک اپنی روح کو پکار سنانے کی وہ آزادی نہیں جو ہونی چاہیے۔ فن کار جب ہر ایک کو سرخم کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اپنی کلاہ کج کر لیتا ہے۔ اقرار کے شور میں اسے انکار کا سر بلند کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جب کوئی عمارت فرسودہ ہو جاتی ہے تو وہ نئی تعمیر کے لیے اسے گرا دیتا ہے۔ تخریب کے ہنگامے میں وہ تعمیر پر اصرار کرتا ہے، وہ پاسترناک کی طرح انقلاب کے جلوس کا شکوہ بھی دکھاتا ہے اور اس میں کچھ کچلی ہوئی روحوں کے زخم بھی۔ وہ کافکا بھی ہے اور کامیو بھی۔ بریخت بھی ہے اور بیکٹ بھی۔
آندرے ژید کا ایک کردار کہتا ہے،
I should like a novel which should be at the sametime as true and as far from reaality, as particular, and at the same time, as general, as human and fictitious as athalia or tortuffe or cini،
“And--- the subject of this novel?
“It hasn’t got one,” answered Edouard brusquely.
And perhaps that’s the most astonishing thing about it, my novel hans’t got an subject, yes. I know, it sounds stupid, let’s say if you prefer it, it hasn’t got one subject --- “a slice of life’ the naturalist school said “the great defect of that school is that it always cuts its slice in the same direction in time lengthwise, why not in breadth? Or in depth? As for me I should like not to cut at all. Please understand I should like to put every thing into my novel. I don’t want any cut of these seissors to cut its substance at one point rather than at another. For more than a year now that I have been working at it nothing happens to me that I don’t put into it.Evorytlning I see, every thing I know, everything that other people’s lives and my one teach me”.
سوال یہ ہے کہ کیا اردو فکشن اس بلندی پر پہنچ گیا ہے؟