دین میں تفقہ حاصل کرنے کا اہم حکم: احادیث مبارکہ میں
دین میں فہم و بصیرت حاصل کرنا ایک مسلمان سے دین کے بنیادی مطالبات میں سے ایک ہے۔ قرآن و حدیث دونوں میں اس کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے۔ زیر نظر تحریر میں نبی اکرمﷺ کی احادیث مبارکہ کا ایک مختصر انتخاب پیش کیا گیا ہے جس میں آپؐ بھی دین میں تفقہ پیدا کرنے، دینی احکامات کی غرض و غایت اور علت کو سمجھنے اور بصیرت مومنانہ کو بڑھانے کی نصیحت ہر مسلمان کو کی ہے۔ ان احادیث پر تشریحات ہندوستان کے معروف سکالر سید جلال الدین انصر عمری کی تحریر کردہ ہیں ۔ (ادارہ)
احادیث میں اس کی بڑی ترغیب دی گئی ہے کہ دین میں گہری بصیرت حاصل کی جائے او ر نصوص کی عدمِ موجودگی میں اجتہاد سے کام لیا جائے ۔ حضرت معاویہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین و انما انا قاسم واللہ یعطی
’’اللہ تعالیٰ جب کسی کے ساتھ خیر چاہتا ہے تو اُسے دین میں سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے ۔ میں تو تقسیم کرنے والا ہوں او ر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ۔ ‘‘
حدیث میں لفظ ’خیر‘ نکرہ استعمال ہوا ہے ۔ اس میں عموم پایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کسی کو خیر کثیر یا بہت بڑی بھلائی سے نوازنا چاہتا ہے اسے دین میں فقہ و بصیرت عطا کرتا ہے ۔ ’وانما انا قاسم‘ کا ایک مطلب یہ ہے کہ جو مالِ غنیمت یا ساز و سامان آتا ہے میں اسے مستحقین کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کر دیتا ہوں ۔ جس کے اندر دین کی سمجھ ہو گی اسے اس پر کبھی اعتراض نہ ہو گا۔ ان الفاظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دین آیا ہے، میں اسے بلا تخصیص سب کے درمیان عام کرتا ہوں ۔ جہاں تک فقہ و بصیرت کا تعلق ہے اللہ جسے جتنی دینا چاہے دیتا ہے ۔ جسے یہ دولت ملی وہ خیرِ کثیر سے بہرہ ور ہوا۔
ایک اور حدیث میں اس شخص کو قابل رشک قرار دیا گیا ہے جو شب و روز قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتا ہے ۔ ارشاد ہے :
لاَ حسد الّا فی اثنتین رجل آتاہ اللہ القرآن فھو یتلوہ آناء اللیل و آناء النھار و رجل اتاہ اللہ مالاً فھو ینفقہ آناء الیل و آناء النھار
’’رشک بس دو خوبیوں پر ہوتا ہے ۔ ایک خوبی یہ کہ اللہ کسی شخص کو قرآن عطا کرے او ر وہ رات اور دن کے اوقات کو اس کی تلاوت میں صرف کرے ۔ دوسری قابل رشک خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال عطا کرے او ر وہ رات دن، ہر وقت اسے خرچ کرتا رہے ۔ ‘‘
قرآن کی تلاوت میں اس کا پڑھنا، اس پر غور و فکر اور اس کی تعلیم و تدریس بھی شامل ہے ۔ چناں چہ مسلم کی روایت میں ’فھو یقوم بہ اٰناء الیل و اٰناء النھار‘ کے الفاظ آئے ہیں، جس کے اندر اس پر عمل کرنے او ر اس کو عام کرنے کا مفہوم بھی داخل ہے ۔
یہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے ۔ یہی روایت حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے آئی ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :
لاَ حسد الّا فی اثنتین رجل آتاہ اللہ مالاً فسلط علی ھلکتہ فی الحق، و رجل اتاہ اللہ الحکمۃ فھو یقضی بھا و یعلّمھا.
’’رشک تو بس دو خوبیوں پر ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ کسی کو مال دے او ر اسے اس کام پر لگا دے کہ وہ راہِ حق میں اپنا مال صرف کرتا رہے ۔ دوسری قابل رشک خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو حکمت دین سے نوازے او ر وہ اس کے ذریعے فیصلہ کرے او ر اس کی تعلیم دے ۔ ‘‘
اس میں قابل رشک خوبی یہ قرار دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کسی پر دین کی حکمت اور اس کے اسرار و رموز کے دروازے کھول دے ۔ وہ اس کی روشنی میں معاملات کا فیصلہ کرے، اس کی تعلیم دے او ر اسے عام کرے ۔
حضرت عمرو بن العاصؓ کی ایک روایت میں اجتہاد کی بڑی حوصلہ افزائی موجود ہے ۔ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا ہے :
اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران و اذا حکم فاجتھد ثم اخطا فلہ اجر
’’جب حاکم فیصلہ کرے، اس کے لیے کوشش کرے او ر امرِ حق پالے تو اسے دو اجر ہیں ۔ جب حاکم فیصلہ کرے، اس کے لیے کوشش کرے، لیکن اس کے باوجود غلطی کر جائے تو اس کا ایک اجر ہے ۔‘‘
مطلب یہ کہ حاکم اپنے فیصلہ میں اجتہاد کے ذریعے صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے او ر شریعت کے منشا کو پا لیتا ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا، لیکن اگر وہ اجتہاد کے باوجود حق و صواب کو پانے میں غلطی کر جائے تو اسے اپنے اجتہاد کا ایک اجر ملے گا اور اجتہادی غلطی کا گناہ نہ ہو گا۔
یہاں حاکم سے مراد وہ حاکم ہے جو دین کا علم رکھتا ہو اور جس کے اندر متعلقہ مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت پائی جائے ۔ اگر کوئی شخص علم کے بغیر اجتہاد کرے گا، اس کا فیصلہ چاہے صحیح ہو، وہ کسی ثواب کا مستحق نہ ہو گا، بلکہ گناہ گار ہو گا۔