فضا میں وحشت سنگ و سناں کے ہوتے ہوئے
فضا میں وحشت سنگ و سناں کے ہوتے ہوئے
قلم ہے رقص میں آشوب جاں کے ہوتے ہوئے
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
بضد ہے دل کہ نئے راستے نکالے جائیں
نشان رہگزر رفتگاں کے ہوتے ہوئے
جہان خیر میں اک حجرۂ قناعت و صبر
خدا کرے کہ رہے جسم و جاں کے ہوتے ہوئے
قدم قدم پہ دل خوش گماں نے کھائی مات
روش روش نگہ مہرباں کے ہوتے ہوئے
میں ایک سلسلۂ آتشیں میں بیعت تھا
سو خاک ہو گیا نام و نشاں کے ہوتے ہوئے
میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے
الجھ رہی تھی ہواؤں سے ایک کشتیٔ حرف
پڑی ہے ریت پہ آب رواں کے ہوتے ہوئے
بس ایک خواب کی صورت کہیں ہے گھر میرا
مکاں کے ہوتے ہوئے لا مکاں کے ہوتے ہوئے
دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے