فتح کتنی خوبصورت ہے مگر کتنی گراں

فتح کتنی خوبصورت ہے مگر کتنی گراں
بارہا رد کی ہے میں نے دعوت وصل بتاں


نغمۂ بلبل ہے فریاد وداع فصل گل
سعیٔ حاصل در حقیقت ہے متاع رائیگاں


زندہ رہنے کے ہیں امکانات کیا آثار کیا
کون سی قدریں ہیں باقی کون سی سچائیاں


شاعروں کا کام کیا تنسیق اوصاف و لغوت
یا ثنا شاہوں کی یا مدح‌‌ سراپائے بتاں


زہر ہے فن کے لئے دربار داری کا مزاج
کمترین شرط گویائی ہے اخلاص بیاں


تیرے ہاتھوں پر لگا ہے بے گناہوں کا لہو
جام جم میں مے نہیں خون سیادش ہے مغاں


میں تو پیتا ہوں فقط گلنار ہونٹوں کی شراب
سبح اسم ربک الاعلی رہے ورد زباں


ختم ہیں اس شوخ رعنا پر طرح داری کے رنگ
قد بالا جس کا ہے رشک قضیب خیزراں


جھنجھنا اٹھنے کو ہیں بیتاب تن بینا کے تار
کون لائے تاب حسن‌ بے حجاب مہ وشاں


بے نیاز حرف ہے گفتار چشم پر سخن
درمیان محرمان جاں ہے نامحرم زباں


کوئی تنہائی کا گوشہ کوئی کنج عافیت
عاشق و معشوق یکجا ہوں کہاں اے آسماں


اے محبو راہ الفت میں ہر اک شے ہے مباح
کس نے کھینچا ہے خط‌ ہجراں تمہارے درمیاں


تتلیاں دیکھی ہیں بیٹھی خشک پھولوں پر کبھی
حاجتیں اپنی کرو تم خوب روؤں سے بیاں


ہم نے نیندیں دے کے راتوں سے خریدے رت جگے
ہم سے کم ہوں گے عکاظ دہر میں بازارگاں


رات دن سنتے ہیں تسویلات ارباب حسد
احتیاج دشمناں بھی ہے ہنر کو بے گماں


جانے کن اوقات میں لکھتا تھا قانون و شفا
بوعلی سینا وہ مقتول مغاں شیوہ بتاں


موت سے وحشت ہے لوگوں کو محبت مال سے
بانگ بے ہنگام ہے کوس رحیل کارواں


ہے قریب اے شب ذرا صبح قیامت کا طلوع
ٹوٹنے کو ہے ازل تاباں طناب کہکشاں


تم اکیلے آئے دنیا میں اکیلے جاؤ گے
زندگی اک پل ہے کیا پل پر بناتے ہو مکاں


خضر زندہ ہے مگر زندانئ عمر ابد
اے اجل کس کام کی ایسی حیات جاوداں


میں بھی ہوں مانند ماموں کے امیر‌‌ الکافرین
بسکہ ہوں وارفتۂ فکر و فن یونانیاں


ہے سلیماں کی طرف واقف لسان الطیر سے
شاعر زہرہ نگاہاں خالد عقدہ زباں


گو حریم آگہی کی شکل بھی دیکھی نہیں
ہے بزعم خویش دانائے رموز کن فکاں