فسردہ ہے علم حرف ہائے کتاب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
فسردہ ہے علم حرف ہائے کتاب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
ہے راکھ ہی راکھ مدرسوں میں نصاب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
دلوں میں شعلے سسک رہے ہیں جمی ہوئی برف ہے لبوں پر
سوال بھی بجھ کے رہ گئے ہیں جواب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
نہیں ہے محفل میں کوئی گرمی ہوئے ہیں دل سرد مطربوں کے
دھواں نکلتا ہے انگلیوں سے رباب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
چراغ ساغر سے لو لگا کر نہ پایا کچھ بھی فسردگی نے
کہ غم تو یہ ہے کہ شعلہ ہائے شراب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
گرفت طوفاں میں آ گیا ہے خیال کا شعلہ پوش دامن
رہے حقیقت ہی جن سے روشن وہ خواب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
بجھا بجھا سا ہے قلب صحرا بجھی بجھی سی ہے ریگ تاباں
فریب کھائے گی تشنگی کیا سراب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں
ہے منفعل ذوق شعلہ چینی عرق عرق ہے جبین خرمن
کہاں سے آئیں گے برق پارے سحاب بھی بجھ کے رہ گئے ہیں