فسردہ دل ہے نظروں کی پریشانی نہیں جاتی
فسردہ دل ہے نظروں کی پریشانی نہیں جاتی
کہ اب تصویر میری مجھ سے پہچانی نہیں جاتی
تمہاری ہی گلی میں عمر کٹ جائے تو بہتر ہے
کہ مجھ سے در بدر کی خاک اب چھانی نہیں جاتی
غلامی نے تمہاری وہ عطا کی ہے مجھے عظمت
کہ شاہی میں بھی دل سے خوئے دربانی نہیں جاتی
کہیں لاکھوں کا گنبد ہے بشکل سائباں سر پر
کہیں اک چادر بوسیدہ جو تانی نہیں جاتی
پیام مرگ دیتے ہیں ہزاروں حادثے پھر بھی
ہماری قوم کی ساحلؔ تن آسانی نہیں جاتی