فصل گل کو ضد ہے زخم دل کا ہرا کیسے ہو

فصل گل کو ضد ہے زخم دل کا ہرا کیسے ہو
چاندنی بھی ڈس رہی ہے غم کی دوا کیسے ہو


رات کی بلائیں ٹلیں تو شاخ صبح سے اتر
ساحلوں سے پوچھتی ہے موج صبا کیسے ہو


وقت کی نوازشوں نے خون کر دیا سفید
سرگراں تھے ہم گلوں سے رنگ جدا کیسے ہو


آسماں بھی تھک گیا ہے سر پہ ٹوٹ ٹوٹ کے
چلتے چلتے ہے زمیں بھی آبلہ پا کیسے ہو


تن کا چاند ڈھل گیا تو وہ بھی بجھ کے رہ گئی
میں بھی سنگ بے حسی سے ٹوٹ گیا کیسے ہو


میرا سر ہے اس زخم لطف سے جھکا ہوا
اس کا دل بھی غم سے میرے عہدہ برا کیسے ہو


نذر جاں بھی پیش کی تو مسکرا کے پھینک دی
اپنے سر سے زندگی کا قرض ادا کیسے ہو


زندگی سے چل رہی ہے اس طرح ظفرؔ کہ بس!
رد و کد بہر طرف ہے اس کا برا کیسے ہو