فساد کے بعد
فساد شہر تھم گیا
فضا میں بس گئی ہے ایک زہر ناک خامشی
ہراس خوف بے بسی
میں کھا رہا ہوں پی رہا ہوں جی رہا ہوں کس طرح
یہ نرم لقمۂ غذا
گرم گھونٹ چائے کا
کسی خیال کے تلے
جلے ہوئے لہو کے ذائقے سا منہ میں جم گیا
فشار کشت و خوں کے بعد
مضطرب سکوت
جیسے دھڑکنوں کے راستے میں تھم گیا
شعور عمر و زندگی سمٹ گیا ہے کرب کے جمود میں
شگاف پڑ گیا ہے جیسے دور تک وجود میں
وہ کیفیت ہے
جیسے گھر میں کوئی مر گیا ہو اور
اس کی لاش دیر تک زمین پر دھری رہے
کوئی جگہ سے ہل کے
اس کو دفن تک نہ کر سکے