فروغ دیدہ و دل لالۂ سحر کی طرح
فروغ دیدہ و دل لالۂ سحر کی طرح
اجالا بن کے رہو شمع رہ گزر کی طرح
پیمبروں کی طرح سے جیو زمانے میں
پیام شوق بنو دولت ہنر کی طرح
یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے ہم نفسو
ستارہ بن کے جلے بجھ گئے شرر کی طرح
ڈرا سکی نہ مجھے تیرگی زمانے کی
اندھیری رات سے گزرا ہوں میں قمر کی طرح
سمندروں کے تلاطم نے مجھ کو پالا ہے
چمک رہا ہوں اسی واسطے گہر کی طرح
تمام کوہ و تل و بحر و بر ہیں زیر نگیں
کھلا ہوا ہوں میں شاہیں کے بال و پر کی طرح
تمام دولت کونین ہے خراج اس کا
یہ دل نہیں کسی لوٹے ہوئے نگر کی طرح
گزر کے خار سے غنچے سے گل سے شبنم سے
میں شاخ وقت میں آیا ہوں اک ثمر کی طرح
میں دل میں تلخیٔ زہراب غم بھی رکھتا ہوں
نہ مثل شہد ہوں شیریں نہ میں شکر کی طرح
خزاں کے دست ستم نے مجھے چھوا ہے مگر
تمام شعلہ و شبنم ہوں کاشمر کی طرح
مری نوا میں ہے لطف و سرور صبح نشاط
ہر ایک شعر ہے رندوں کی شام تر کی طرح
یہ فاتحانہ غزل عصر نو کا ہے آہنگ
بلند و پست کو دیکھا ہے دیدہ ور کی طرح