فریاد کی لے
یہ قصہ محمد مخلص نام کے اس مسلمان کا ہے جو کبھی مدینہ نہیں گیاکیونکہ مسافری کے نام کے سکیّ اس کی جیب میں کبھی پائے نہیں گئے۔ پھر بھی ایک راہ اس کے خیال میں اور ایمان کے درمیان سے ہوتی ہوئی اس کے پاؤں کو مدینہ کی طر ف لے جاتی تھی۔البتہ یہ سب کچھ بتانے سے پہلے لازم ہے کہ اس کے بارے میں بہت پیچھے رکھی ہوئی ایک تفصیل کی طرف چلیں ۔بھلا دیکھیں تو سہی کہ وہ کہاں سے اور کس سرے سے چلاتھا!ابتدائی آثار بتاتے ہیں کہ اس نے کبھی مٹی کے کسی ڈھیلے سے انسانی چمڑے کی انسانی نیت سکھانے کی خوش ایمانی کالمس نہیں کیایااسے آدھے لوٹے سے دھوئے جانے سے پہلے اس میں جھانک کے کسی پاکی صفائی والے انسانی چہرے کو نہیں دیکھا۔خلاف اس کے وہ کیسی جارحیت تھی جس نے انسانی جلد میں چاقوکی نوک کی مثل چھید کرتے ہوئے لذت طلبی کو اپنائیت کے مکر میں بدل دیا تھا۔ تاریکی میں تھوک لگاناکیسی مانوس اجارہ داری تھی!یوں بھی گھر میں مرغیاں پالی جاتی تھیں۔سویرے سویرے دربے میں کسی نہ کسی مرغی کا دیا ہوا انڈامل جاتاتھا۔لیکن کبھی رات برات کوئی گیہوں سانپ دربے میں گھستے ہوئے اپنی پھونک سے مرغیوں کو مار ڈالتاتھا۔اس کے باؤجود مرغیوں سے سانپ کا لگاؤمانوس مقدر معلوم ہوتا تھا۔
شاید اسی لئے محمد مخلص نے کبھی وضوجیسا وضو نہیں کیا۔کبھی سر پر کوئی ٹوپی جیسی ٹوپی نہیں رکھی ۔کبھی ایک وقت کی نماز نہیں پڑھی ۔کبھی کسی مسجد جیسی مسجد کا رخ نہیں کیا۔بلکہ اس کے غیر ترکیبی ظاہری حلیہ سے بھی اسے کبھی مسلمان جیسا مسلمان کہلاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔تاہم اس کے بارے میں لکھی گئی ایک دستاویز میں درج ہے کہ اس کا خاندان ایک قدیم محبت سے چلتاہوا اس کے باپ کے دل تک پہنچاتھا۔ اس دل کے ہی کسی حصہ میں ایک سیدھا سادا مسلمان رکھا ہواتھا۔ جبکہ اس کے مٹی کے کچے گھر کی سادگی اور دیہاتی مسجد کے صحن میں چمکنے والی چاندنی میں بڑی مساوات تھی ۔سو،وہ آدمی کے حق میں بڑی دعائیں کیا کرتاتھا ۔مگر گزر اوقات کے دن کا تین چوتھائی حصہ گزار کے جب وہ بازار کی کچی سڑک پر اوردورویا دکانوں کے درمیان گزر رہا ہوتا تھاتو وہ دیکھتا کہ ایک برہمن بک سیلر کا مقناطیس بہ یک وقت اسے اور سورج کو اتنے پاس لے آتا کہ یہ سمجھنا مشکل ہوتا کہ اس کے ماتھے کی بندیا کس سے مکالمہ کررہی ہوتی اس سے یا سورج سے !بولی تو پوربی ہی تھی۔ مگر کوئی نہیں کہہ سکتاکہ کائنات میں پہلے مقناطیس پیدا ہواتھا یا ہندوعورت ! یا قیاس سے کہا جاسکتا تھا کہ دنیا میں سب سے پہلے مقناطیس ہندو عورت نے ایجاد کیا اور اس کے استعمال میں بھی اسی نے پہل کی ۔ورنہ محمد مخلص کا باپ سانجھ ڈھلے سے پہلے ہی گھر پہنچ چکا ہوتا۔
پھر ایک بار اس کے پڑوس میں اس کی اماّں کی زچگی کرانے والی چمارن مررہی تھی ۔جانکنی میں اس کادم آسانی سے نہیں نکل رہا تھا۔یہ سن کروہ اس کے مرن بستر کے پاس اپنے باپ کو ساتھ لئے پہنچا۔ باپ نے اس کے حق میں ایک دعا پڑھی اور جب تک اس پر اس کی موت آسان نہیں ہوتی وہ وہیں اس کے سرہانے کھڑا رہا۔خود محمد مخلص نے خیال ہی خیال میں دیکھاکہ اس کے باپ کا چہرہ اتنا پُر سکون تھاجتنا اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔یہاں تک کہ اس کی ماں کی زچگی کو آسان کرنے والی چمارن کی روح اوپر آسمان کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں سے ہوتی ہوئی کہیں سے کہیں جاچکی تھی ۔البتہ اس کی اماّں نے بھی ایک بار چمارن کے بغیر دردِ زہ میں چارپائی پر لوٹتے تڑپتے ہوئے بھی تازیہ والے چوک کے سامنے والے مکان سے ایک سپاہی کے تین طلاق کی داغی ہوئی اور الف ننگی باہر نکالی ہوئی ایک بدنصیب عورت کو اپنی دھلی ہوی اجلی ساڑھی پہنائی اور اپنی کوٹھری میں پناہ دی تھی جبکہ عورت اسی حالت میں اپنے نہیرجانا چاہتی تھی اور نہیر والے راستے پر رات کی چڑھائی تھی ،ہڑال بول رہے تھے ۔اماّ ں نے اسے ہڑال کے اندیشے سے روک لیا تھا۔باہر گلی سے تازیہ والے چوک تک کھلے آسمان کے نیچے وہی خداکی زمین تھی۔جہاں زیادہ نہیں بس تھوڑی ہی دوری پر ضلع بورڈ کا اسپتال ہوا کرتا تھا۔جس کاانچارج ایک کائستھ ڈاکٹر تھا ۔اس نے اسپتال کی باؤنڈری میں ایک ایسی جیون بوٹی لگارکھی تھی جس کی صرف نظری تاثیر سے سانپوں بچھوؤں کا زہر اتر جاتاتھا۔افسوس کہ اسے بہت عمر نہیں ملی مگر ضلع بورڈ کے اسپتال کی باؤنڈری میں اس کے ہاتھوں لگائی ہوئی بوٹی کو دیکھنے والی آنکھیں زندہ رہیں ۔خود محمد مخلص نے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے یہ بھی دیکھا اور یاد رکھا کہ وہ کچھ اور نہیں تھا، شاید وہ کوئی اسلام تھا یا اگر بالفرض وہ کوئی اسلام نہیں بھی تھا تاہم کہانی ختم نہیں ہوئی تھی۔
اگر گیندارانی کی کہانی والاراج کمار اڑھول کے پھول کے بھیتر سے آتی ہوئی مکار آواز سن کے دھوکہ کھا جاتا تو وہ ڈوم دوبارہ زندہ ہوجاتا۔جس نے گیندارانی کے بھائی کو جوئے میں ہراکر بدلے میں اس کی بہنیا کا سوداکرلیا تھااور تب وہ اپنی بہنیا کو ساتھ لئے مقررہ تالاب کے کنارے پہنچا تھااور اس نے اپنی بہنیاسے تالاب کے کنارے پاؤں کی ایڑی بھر پانی پر تیرتے کنول کو باہر نکال نکال لینے کے لئے کہاتھااور بھا ئی کاکہامان کر ایڑی بھر پانی میں کنول کے پاس ابھی پہنچی ہی تھی کہ کنول آگے کی اور سرک گیا۔جوں جوں وہ آگے بڑھ کے کنول کی اور ہاتھ بڑھاتی وہ بتدریج آگے ہی سرکتا جاتاتھاجب کہ پانی گہرا ہوتا تھاجاتاتھا۔جب کمر تک پانی پہنچا تو اس نے بھائی کو پکارا’’بھیاہو بھیا۔۔۔کمر تک پانی ‘‘مگر بھیا نے سنی ان سنی کردی ۔یہاں تک کہ جب پانی گردن تک پہنچا تبھی کنول سے بندھی ڈوری کو تھام کے پانی کے تہہ میں چھپے بیٹھے ڈوم نے گنیداوارانی کونیچے دبوچ لیا تھا۔ مگر یہ کہانی جس علاقے کی مائیں اپنے بچوں کو سناتی تھیں وہاں تو زندگی کے ورثہ میں ملے ان گنت ازار ہواکرتے تھے ۔انہیں ازار کے درمیان کہیں نہ کہیں سے کسی کونے کھدرے سے یاکسی انتہائی زیریں تہہ داری سے کوئی نہ کوئی کردار نمودار ہوتاتھااور کہانی میں شامل ہوجاتاتھا۔جب تک شامل رہتا مزید شامل رہنے کے لئے اصرار کرتا رہتاتھا۔یہاں تک کہ اوجھل ہوتے سمے بھی کہانی کو جاری رکھے جانے کی تاکید کرجاتاتھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں چالیس گاؤں تھے ۔ان چالیس گا ؤں میں دوبوڑھے رہا کرتے تھے ۔ ایک بار کرنا کچھ ایسا ہوا لوگ تڑکے منہ اٹھے ہی تھے کہ یکا یک بھونچال نے آلیا۔آدمی اور مویشی مکانوں کے ملبوں اور مٹی میں پھٹتی دراڑوں میں دب گئے ۔اس کے کچھ ہی عرصے بعد طاعو ن آیا۔چوہوں کی موت آدمیوں اور بغلوں اور رانوں کی گلٹیوں میں منتقل ہوتی ہوئی راست قبرستان اور مرگھٹ کی راہ لیتی ہوئی مگر اپنے پیچھے فقط بھائیں بھائیں چھوڑے جاتی تھی،بس کیاتھا جو باقی بچ گئے تھے ان میں سے بہتیرے آنکھوں میں جو دشا سمائی ادھر ہی چل دئیے یا اپنی داسنت میں محفوظ علاقوں کو کوچ کرگئے تبھی قدرت نے ایک عجیب منظر دکھایا کہ وہ جوچالیس گاؤں تھے سنسان ہونے کے باؤجود کچھ ایسے آباد نظر آتے تھے کہ ہر گاؤں میں پورب پچھم دونوں سروں پر مچانیں گڑیں ہوئی تھیں ۔اس طر ح اِن کی تعداد کُل اسّی تھی۔مگر ان چالیس گاؤوں کی اسّی مچانوں پر وہی دوبوڑھے لگاتار ساٹھ دن تک روحانی پہرادیتے رہے اور انہیں خدا کے سوا کسی نے بھی نہیں دیکھا کیونکہ کہانی جاری رکھنے کی تاکید کے وقت ہی یہ معلوم ہوگیا تھا کہ دونوں میں سے ایک بوڑھا محمد مخلص کا دادا تھا ۔ جبکہ انہی دنوں بھونچال اور طاؤن کے ملے جلے مُردوں میں شامل ندی پار والے شہر کی رنڈی کی ارتھی دوسرے بوڑھے کی چوکھٹ پر رکھی ہوئی تھی ۔
یہ بھید محمد مخلص کو اپنے باپ سے معلوم ہوا تھا کہ وہ رنڈی دوسرے بوڑھے کی مہرارو بننے کے ساتھ ہی مسلمان ہوگئی تھی پھر بھی معلوم نہیں کیوں وہ مرنے کے بعد قبر میں دفن نہیں ہونا چاہتی تھی شاید منکرنکیر سے ڈرگئی تھی ۔مگر دوسرے بوڑھے نے خواب میں دیکھا کہ اس کی مہریا کی وہی ادا خداکو پسند آگئی تھی۔ اسی لئے اس نے اسے قبر میں دفن کروانے کے بجائے اس کی چِتا جلوائی تھی ۔کسی نے اس سے نہیں پوچھا کہ اس نے اس ایسا کیوں کیا!پھر بھی وہاں سے زیادہ دور نہیں بس تھوڑی دور پر گاؤں بھر کے ایک اور دادا رہتے تھے یہ لنگی پہنے ننگی پیٹھ وہ چالیس گاؤں گھوما کرتے تھے ۔البتہ ان کی پیٹھ پر جلے ہوئے گلگلے جیسا ایک مساّ ان کی آمدورفت کے اعلان کی پہچان کراتاتھا۔البتہ ان کی مڑئی میں ان کی باقی عمر کی تنہائی رکھی ہوئی تھی ۔جب سے وہ ترائی کے جنگلوں سے لوٹے تھے فقیر بن کے کشکول لئے چالیس گاؤں در در پیسے دو پیسے یا مٹھی بھر آٹے دال کی بھیک مانگا کرتے تھے ۔کئی گھروں کی عورتیں ان کے ہاتھوں بازار ہاٹ سے سودا سلف منگوایا کرتی تھیں۔البتہ وہ ہندومسلم ملی جلی آبادی سے بھی گزرتے ہوئے یہی صدالگاتے تھے :
مدینہ نہ دیکھا توکچھ نہ دیکھا
جبکہ انہوں نے مدینہ کبھی نہیں دیکھا تھا ۔شاید ان کی ان جیسے بہتوں کی آپ ہی آپ مرکب کی ہوئی غریبی نام کی دیومالا تھی جو ازل سے چلی آئی تھی اور اس کے قرب وجوار میں ایک سانس دوسری سانس تک یا درمیان میں ہی کوئی اسلام گوندھا جاتا تھااور یہ گوندھ کتنی ہی بار محمد مخلص کی بصارت میں ہوچکی تھی ۔پھر بھی معلوم نہیں کہاں سے اور کب کیا پھر گیا تھاکہ ننگی پیٹھ کے جلے ہوئے گلگلے کسی دن کسی کو کچھ بتائے بِنا گاؤں چھوڑگئے ۔ان کی مڑئی میں ہڑالوں کا پھیرادیکھا جانے لگا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مدینہ جانے والی راہ پر ہی قوم نے سبز رنگ کی جو ایک علیحد گی کھینچی تھی ادھر ہی کو انہیں جاتے دیکھا گیا تھا ۔جبکہ انہیں دیکھنے والے بھی کسی کو اس لئے نہیں دکھائی دیتے تھے کہ وہ بھی قوم میں سے تھے اور قوم کا مفہوم اس زمانے میں ہوا کرتاتھا ،سب کچھ چھوڑکر کوچ کرجاؤ یہاں تک کہ لہو کی اس بوند کو بھی جو گھر زمین جائیداد سے بالا انتہائی بازیافتوں اور خوابوں کے درمیان نقش کی ہوئی ہوتی ہے اور ابدتک کے لئے خشک ہونے سے رہ جاتی ہے ۔خلاف اس کے کرنا کچھ ایساہوا کہ تمام درندوں کی پنجوں کی کھرونچ اور ان کے نوکیلے دانتوں کی بھنبوڑ کو اکھٹے ہی ایک قسم کی کھرل میں کوٹ پیس کے جوآواز بنائی گئی وہ اب انسانی آواز کی جگہ لے چکی تھی ۔ ا س کی دستاویزی صلاحیت یہ تھی کہ اس سے دیرپا لاتعلقی یا پائیدار بے حسی کو قائم رکھا جاسکتاتھا
بلکہ ستم یہ کہ اس سے راستی کا ایک مفہوم وضع کیا گیا تھا ۔اس احمق کی کہانی سے مشابہ جسے اس کی ماں نے پہلی بار سسرال جاتے ہوئے ایک سیکھ دی تھی کہ بیٹا ناک کی سیدھ میں جانا اس نے ناک کی سیدھ کا مطلب یہ سمجھا کہ راستہ طے کرتے ہوئے جب اس کی ناک کی سیدھ میں کنواں اور پیڑآئے تو کنوئیں کو پھلانگ گیا اور پیڑ پر چڑھ کر اس کی چوٹی والی ڈالی سے نیچے اسی سیدھ میں پہنچا ۔آخر جب وہ سسرال پہنچا تو سسرال کے مکان کے عقب کی دیوار اس کے ناک کی سیدھ میں آگئی ۔جھٹ وہ دیوار سے ناک لگا کر کھڑاہوگیا۔اس کے سسر اور دوسرے سسرالی رشتے دار اسے اس حالت میں دیکھ کر حیران ہوئے اور اسے مکان کے بھیتر چلنے کو کہا تو وہ بولا تھا ،نہیں اماں نے کہا ہے کہ بیٹا ناک کی سیدھ میں جانا ۔اسی طرح اگر ناک کی سیدھ میں کوئی ندی آجاے تو اس کے پانی کو اسی سیدھ میں کاٹتے ہوئے تیر جاؤیہاں تک کہ کوئی قدرتی پہاڑ آجائے تو اسی سیدھ میں ایمان کے جوش میں اس طرح اچھل جاؤ کہ اس کی دوسری طرف تمہارے قدم مقر ر جگہ پرپڑیں۔
تاہم ننگی پیٹھ کے جلے ہوئے گلگلے مختلف قیاس آرائیوں سے ابھی پرے نہیں نکلے ہوں گے ۔وہ جو کوئی بتارہا تھا ممکن ہوویسا ہی ہوا ہو کہ درمیان درمیان میں کچھ ایسی باقیات بھی تھی کہ اس کو ذرادیر کے لئے مسلم آباد ی کی پرانی ریاستی اجارہ داری کا گمان ہوتا تھا۔جبکہ اس کے چوگرد ہندو عمل داری تھی ۔ہر چند اس کی طرف سے بظا ہر کوئی روک ٹوک نہیں تھیْ ۔مگر ایک وقت کی بھوک مٹانے والی روٹی ہندو یا مسلمان نہیں تھی ۔بلکہ انہیں فاقہ کرتے ہوئے تین دن بیت گئے تھے ۔ایسے میں کسی نے انہیں جامہ مسجد کے عقب کی ایک گنجان گلی میں کسی ہوٹل کے تھڑے کے پاس نیم دائرے میں اکڑو بیٹھے غریب غربا محتاج مساکین کے ساتھ بٹھادیا تھا۔رات کا بچاہوا باسی یا نیم سڑاکھانا باٹا جارہا تھا ۔افسوس کہ انہیں معمول کے خلاف اچانک اجنبی پاکے وہ سارے غریب غربا محتاج ومساکین ان کی ننگی پیٹھ کے جلے ہوئے گلگلے پرٹوٹ پڑے تھے۔
اب یہاں سے یہ بتایا نہیں گیا تھا کہ وہ اپنے ہی جیسے گرسنوں اور فلاکت زدوں کے ہاتھوں لہولہان ہوکے وہیں ڈھیر ہوگئے تھے یا وہاں سے کہیں اور چل دئیے تھے ،پھر بھی انہیں روٹی کا ایک ٹکڑا میسر آیا تھا یانہیں !جو کچھ بھی ہواہوجب ان کے بارے میں صرف قیاس سے ہی بتایا جاسکتاتھاتو وہ سب کچھ کیا تھا کہ ترائی کے علاقہ والے شہر سے وہاں کی کچہری کے پیش کار کی بیوی چالیس گاؤں میں سے ایک یعنی اپنے نئیر والے گاؤں میں آئی تھی!وہ تو بتارہی تھی کہ بالکل وہی حلیہ تھا۔وہی ننگی پیٹھ اور اس پر جلے ہوئے گلگلے ،شائد انہیں کسی نے صلاح دی تھی کہ مدینہ جانے کے لئے پیسہ پیسہ جوڑ کے رقم جمع کرنا پڑے گی۔سو وہ ترائی کے علاقے والے شہر میں کشکول لئے در در بھیک مانگتے تھے ۔اس سے قطع نظر کہ وہ ترائی کے جنگلوں میں رہ چکے تھے ۔پھر بھی شہر تو ان کی دانست میں جانا پہچانا نہیں تھا۔ان کا خیال تھا کہ اس اجنبیت میں بڑی عافیت تھی ۔اس غلط فہمی وہ ایک دن شہر کی سول لائنز کے مکان پر صدالگارہے تھے مگر جوعورت ہاتھ میں پیسہ لئے دروازے پر آئی وہ تو کوئی اور نہیں اسی پیش کار کی مہرارو تھی ۔سامنا ہوتے ہی ایک دوسرے کی حیرتی پہچان کے لئے ایک طرح کی کرب حسرتی چیخ نکلی تھی ممکن ہو عورت کو اپنے نیہئر والے گاؤں کے حوالے سے یہ غم ہوا ہو کہ تھے تو وہی بیچارے لیکن گاؤں کی بات اور تھی ۔شہر میں تو کم از کم انہیں اس حالت میں پایا نہیں جانا چائییے تھا۔دوسری طرف ان ستم رسیدہ کو جو دھچکا پہنچا تھا وہ ان کی سادہ لوحی تھی کہ مدت سے چھُٹے گاؤں کا کوئی حوالہ شہر میں بیاہی ہوئی عورت کے روپ میں ان کے سامنے اچانک آجائے گا۔
کہا جاتاہے کہ اس صدمے کے مارے وہ وہاں ایک پل ٹھہرے نہیں تھے ۔بلکہ پیٹھ موڑ کے بھلا گئے کیا کہ سد اکے لئے چلے گئے ۔شاید اس شہر کو چھوڑکے کسی اور سمت کوچ کرگئے تھے یا وہیں کہیں گمنامی میں جامرے تھے ۔ویسے اس تفصیل پر کچھ اہلِ یقین کو شک تھاکہ اگر ان کے قبیل کے آدمی کو مدینہ جانا ہی تھا تو اس کے لئے کسی ایسے شہر کا رخ کیا جانا چاہئیے تھا جہاں مدینہ جانے کے نام پر پیسہ دوپیسہ دے کر ثواب کمانے والے رہ رہے ہوتے جب کہ ترائی کے علاقے والے شہر میں تو ان دنوں کتابوں کی دکان پر گیروے کپڑے کی جلد والی شری مد بھگوۃ گیتا کا دام چھ آنے تھا اور چھ آنے کے حصول کے لئے ایک بار ایک کرشن بھگت نوجوان کو چار دن انتھک پھرنا پڑاتھا۔ایسے شہر میں مدینے جانے کے نام پر تو مہینوں پھرنا پڑتا تب بھی ایک پیسہ تو کیا ایک دھیلا ایک ڈھیبوا نہ ملتا۔اب یہاں ذراٹھہر جائیے ۔۔۔کہ بالکل ایسے ہی پیرائے مفلسی سے کچھ عرصے بعدمحمد مخلص کوگزرنا تھا۔لیکن ابھی اس کی اماّں جیتی تھی مری نہیں تھی جبکہ اس کے اباّ چاہتے تھے کہ بیٹا اپنے چچا کے ساتھ اس اور کو چلا جائے جس اور قوم نے علیحدگی کھینچی تھی اور یہ گویا مژدہ ہجرت تھایا ان دنوں مسلمانوں کے سروں میں بڑی گرمی پڑرہی تھی اور باور کرایا گیا تھا کہ ان کی نئی نسل کا مستقبل وہاں پہنچتے ہی سنور جائے گاتاہم اماّں کی مامتا نے بیٹے کو روکنے کے لئے اتنا گریہ کیا اس کے قدم کسی جبر کی خوش امید پکڑ میں آنے سے رک گئے ۔
ویسے اماّں نے اس کی سوچ میں اس علاقے کی دلہن کی شبیہہ کچھ یوں بنارکھی تھی کہ پہلے ایک منقش ٹوکری میں بھر ی شکر کی سپیدی پر تل مکھانے اور سرخ ناڑے کا گچھا نظر آیا۔پھر اس سے ایک عجیب رات نمودار ہوئی کہ اسے صرف ایک کنوارا بد ن نہیں کہا جاسکتا تھایا وہ صرف مہندی،ابٹن اورسرخ جوڑے کی مہکار کا مجموعہ نہیں تھابلکہ اسے تو ایک نظر دیکھتے ہی کائنات بھر کی پیاس جنم لے چکی تھی یا اس حیرتی پیاس کا نام ہی دلہن تھا۔البتہ واضح لہجہ میں اسے یہ بتایا گیا کہ جب وہ چھ برس کا تھاتو اس کی خالہ نے جس بچی کو جنم دیا تھا،اسے اماں نے اس کے لیے مانگ لیا تھا مگر افسوس کہ بعد اس کے خالہ کو اس کا شوہر سوئے دکن کیا لے گیا کہ بس وہیں کا ہورہا تھا۔ رفتہ رفتہ جب محمد مخلص کچھ بڑا ہوا اور بلوغت ذرا ذرا چھبنے لگی تھی تو وہ سوچتا تھا کہ اس کے لئے مانگی گئی بچی زمین کے کس دکن میں میں رہ رہی تھی ! بس اس کے دھیان میں سرخ ناڑے ابھرتے یہاں تک کہ ایک معصوم کائنات سرخ ناڑوں سے بھر جاتی تھی۔
ایک دن وہ فجر کی اذان کے بعد تڑکے منہ اسارے کے داسے پر بیٹھا دتوَن کررہا تھا کہ اس کی نظر گھر کے کپڑے دھونے والے دھوبیا کی لیکنیا پر پڑی۔ اس کی لیکنیا کیا تھی اپنے بدن کی تفصیل میں نری پوربی تھی ۔ جب وہ دھلے ہوئے کپڑوں کا بڑا سا گٹھرا لادے ہوئے چلتی تھی تو پیچھے سے اس کی کمر کی لچک کولہوں کو بیچ کی چیر سمیت لوک نرت کے مون سُروں میں بدل دیتی تھی مگر کچھ ایسی گمان جھلک ہوتی تھی کہ کچھ دور سے ایک گھاٹ کھینچ آتا تھا جہاں دھوبیا پاٹ پر کپڑے دھوتے ہوئے وہی لہکار سنائی دیتی تھی۔
دھوبیا دھوئے مہوبے گھاٹ چھیو رام چھیو رام رام چھیو
اور اس لہکارمیں بھی کہیں کچھ ایسا ضرور تھا کہ اس دن محمد مخلص خود کو وہ تصوری سِروں پر پارہا تھا ۔ ایک سِرے پر مدینہ تھا اور دوسرے سرے پر مہوبے گھاٹ۔ جبکہ درمیان میں لیکنیا اپنی چال چلتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی تھی ۔ اس وقت اس نے ایک بیل بوٹوں والی بیگنی ساڑھی پہن رکھی تھی۔تبھی تو محمد مخلص نے داسے سے اٹھ کے اس کے پیچھے تیز قدم رکھتے ہوئے اسے پکارا تھا۔۔۔آواز سن کے وہ پلٹی تھی بلکہ رک کے اپنے سر سے کپڑے کا گھٹّر اتار کر بھوئیاں دھرا تھا اور پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔کاہو ۔۔۔بابو کا نہارتْ ْْْْْہوو۔۔۔جواب میں وہ اتنا ہی بول پایا تھا ۔۔۔کچھہو ناہیں جبکہ اس ’’کچھہو ناہیں ‘‘میں ہی تو بہت کچھ تھا ۔اس دن سہ پہر سے گھر میں حلوؤں کی تیاری ہورہی تھی ۔سانجھ بھئے جب سینی میں چنے رؤے اور میدے کے حلوے کے قتلے کیے جارہے تھے تو دھوبیا کی لکنیا اپنے حصے کا حلوہ لینے پہنچی تھی۔پھر کسی نے نہیں دیکھا کہ کس طرح محمد مخلص نے اپنے ہاتھوں سے حلوہ اس کی تھیلی میں ڈالا تھا۔ایسے میں چاندنی گھر آنگن سے مسجد کے صحن تک پھیل گئی تھی۔البتہ بِنا مینار اور گنبد ایک چھت تھی جس پر جامن کے پیڑ کی جنوبی سمت کی ڈالیوں کا ساییہ پڑرہا تھا جب کہ لیکنیا اپنے گھر کی اورراستے پر جاتی ہوئی مڑ مڑ کے محمد مخلص کودیکھتی تھی اور اس کے بدن کا سایہ جامن کے پیڑ کی شمالی سمت ڈالیوں کی زد سے بچی ہوئی چاندنی میں ایک متحرک جزیرہ بناتا ہوادکھائی پڑتاتھا۔اس جزیرے کے علاوہ کئی ایسے جزیرے بھی تھے جو اس مبارک رات کی چاندنی میں بیداری کی عبادت سے متحرک ہوتے ہوئے نظر آئے تھے ۔ا ن عزیز رشتے داروں کی رو حیں عالم ارواح سے آرہی تھیں یا بس آیا ہی چاہتی تھیں۔یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کے بعد انہیں کتنا یا د رکھا گیا۔ کون کون ان کی چاہت میں کتنا ثواب پہنچاتارہا۔مگر ان کے چاہنے والوں میں تو گھر اور خاندان کے بڑے بوڑھوں سے زیادہ نوعمر لڑکے لڑکیوں کو دیکھا گیا تھا۔ نہ جانے وہ کیسا جوشیلا شوق تھاکہ روحوں سے خوف کی روایت کو بالکل بے ضرر بنانے کے لئے جانماز پر نوعمری کے بدن ایک دوسرے سے سٹے ہوئے بہ یک وقت خون کی حدّت سے اکساہٹ جگانے اور زیادہ زیادہ نفلیں اداکرنے کی خوشی کے باؤجود انجانے میں ایک دوسرے سے ذراہٹے ہوئے بھی تھے ۔ورنہ چاندنی میں ان کے سایوں سے جزیرے بھلا کیسے بن سکتے تھے !بلکہ محمد مخلص سمیت بڑکی اماّں کی دونوں بیٹیاں اورچھوٹی پھوپی کی چنچل بیٹی کی آنکھیں سلام پھیرتے ہی چوگرد پھرتی تھیں کہ مبادہ منجھلی دادی کی روح آنے والی ہو! سو،وہ اگر ،منجھلی دادی ہی تھیں تو وہ ان کی روح کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھا ۔یہاں تک کہ اس کے حوصلہ کے اعتبا ر سے چند لفظوں کی ادائیگی رہ گئی تھی اس اثنا میں جائے نماز پر چاندنی نے بڑکی اماّں کی بڑی لڑکی اور چھوٹی پھوپھی کی چنچل لڑکی کے بدن سے بننے والے جزیروں کو سجدہ کی تھکان کے دوران ہی سلادیاتھا۔ایسے میں یاد نہیں پڑتا کہ محمد مخلص نے اپنے حصے کی آخری دو رکعت اداکرتے ہوئے نریوں تھپوؤں کی کگار سے ملی ہوئی چھت کے حاشیہ تک کسی سپید ہیولے کو یکایک خیرگی میں بہتے ہوئے انداز سے آتے دیکھا تھا ۔۔۔ یا چاندنی یکدم ہی اس کے ساتھ جاگتی ہوئی بڑکی اماّں کی بڑی لڑکی اور سوتی ہوئی چھوٹکی لڑکی اور چھوٹی پھوپھی کی چنچل بیٹی کے جزیروں میں سرایت کرگئی تھی ۔یعنی ہر اک کی یکجائی چاندنی تھی اور سایایکا یک ندارد تھا۔مگر جب بھور ہوئی تو بڑی لڑکی نے محمد مخلص کو غالباً آدھی نیند سے سمیٹ کے کچھ پوچھا تھا یا اس نے کچھ جواب دیا تھا کیونکہ اس کے بعد چاندنی میں زندگی کو اپنے بدن سے جزیرے بنانے کے لئے اور روحوں کی ایک رات کی آزادی کے لئے اگلے سال کا انتظار کرنا تھا۔
البتہ کچھ ہی دن گزرتے تھے کہ گڑھی کے اس طرف راجہ جی کے بگیچے میں املی کے پیڑ کی ڈالی پر فاختہ بول رہی تھی۔۔۔’’سبحان تیری قدرت سبحان تیری قدرت‘‘پھر وہ جو ایک پودینے شاہ ہوا کرتے تھے کہ گاؤں گاؤں پودینے کی چٹنی کی صدا لگاتے ہوئے چلتے پھرتے ۔یہ صدا ان کے گلے سے نکلتی ہوئی تو اپنی نوعیت کی انوکھی طلب کی کھنک لئے ہوتی تھی مگر لفظ چاٹنی کی ای ۔۔۔ی۔۔۔ی کسی بے طلب باز گشتی بلندی سے جاملتی تھی۔ گھر گھر سے مسجد کی طرف افطاری لے جاتے ہوئے روزے داروں اور ان کے بچوں کوپودینے شاہ اپنے صافے سے تہبند تک اللہ شان ہو جلال ہوکا جلوہ معلوم ہوتے تھے ۔دراصل وہ کچھ مانگ کے نہیں لے جاتے تھے ۔کہا جاتاہے کہ زندگی کا ایک حصہ ان کی جاگیر سے ملا ہوا تھا جبکہ پودینے کی روحانی ٹھنڈک اور چاشنی دنیا برائے آخرت کا سواد معلوم ہوتی تھی ،سب سے بڑھ کے محمد مخلص کی دلچسپی درونِ منظر پودینے شاہ کے صافے اور تہبند کوکچھ اس طرح مصْور رکررہی ہوتی تھی کہ اللہ میا ں کسی انتہائی بلندی سے تمام عالم کی نیل اور کھریا مٹی سے معمورفضا کو چیرتے ہوئے نیچے اتررہے ہوتے تھے اور ان کے اترتے ہی موسم بدل جاتا تھا۔
ایک تازہ زندگی کسی نامعلوم کائناتی سرے سے شائد تمام ملائکہ کے جلو میں چلی آتی ہوئی نریوں تھپوؤں کے گھروں کے چھاجن سے عیدگاہ کی دیوار اور مینار کی سیمنٹ کی پرانی مدت بتاتی ہوئی کالی سبز سوکھی کھرندوالی کائی تک پرطاری ہوتی ہوئی یہاں تک کہ عیدگاہ کے قبرستان کی بارشوں سے دھنسی قبروں کوکسی انجانی رونق سے پُر کرتی ہوئی ایک عجب روحانی میلہ باور کراتی تھی۔ کچھ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ عید گاہ کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے لوگ اور لڑکے بالے اب قبروں پر پھیلی گرمی کی دھوپ میں اپنے سایوں کے متحرک جزیرے بنارہے ہوتے تھے ۔ اس دوران کوئی ان کے سوا ان خو ش حسرت پکاروں کو نہیں سنتا تھا جوان کے عزیزوں کی قبروں سے ان کی سماعت تک آرہی ہوتی تھی۔۔۔ارے ہوفلانے ۔۔۔ارے بھیّن ۔۔۔ارے ببوان ۔۔۔ارے لال ۔۔۔ محمد مخلص کو یاد آنے لگتاتھا کہ ہر سال ا س کی اماں اسارے کے لپے پتے فرش پر سوئیاں لئے بیٹھی اس کی راہ دیکھا کرتی تھی کہ عید گاہ سے لوٹ کر اب وہ آتاہی ہوگا ۔آتے ہی وہ عیدی بھی مانگے گا ۔ان دنوں بچوں کے لئے ایک پیسہ عیدی بھی سخی ہوتی تھی۔خاص کر تانبے کے چھید ہوئے پیسے لیے ہوئے بچے انہیں گنتے تھے۔ایک ٹھو،دو ٹھو،،تین ٹھو ،چار ٹھو۔۔اس طرح گنتے ہوئے کبھی کبھی وہ ان کے چھید پر آنکھ رکھ کے اپنی دانست میں آس پاس کے منْظروں کا احاطہ کرتے تھے ۔یہ ایک قسم کی دوربینی کی ساخت تھی جس سے وہ اپنی دانست میں خوشگوار نظاروں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔کم از کم ان کے خیال کی رسائی یہیں تک تھی یا دنیا انہیں اتنی ہی نظر آتی جتنی کہ وہ دیکھ سکتے تھے ۔ویسے بھی ان دنوں مسرت کی ابھی ابتدائی تربیت ہوئی تھی،ابھی افادہ کرنا نہیں سکھایا گیاتھااورجو راہ مسجد کے دروازے کی طرف جاتی تھی اس پر کوئی دکا ن نہیں تھی،جبکہ مسجد کی ملکیت صرف ایک انارہ تھا جس سے پانی کھینچا جاتااور مٹی کے بندھنوں میں وضو کے لئے بھرا جاتاتھایا زیادہ سے زیادہ جواں مردی کے نہان خاص کرسینے کے گھنے بالوں کو بھگوتے ہوئے بھالے کی انی جیسی ہئیت بتانے کے لئے انارے سے لگرے کو دوتین بار کھینچ کر پاؤ ں تک انڈیل لیا جاتاتھا۔اس طرح نہاتے ہوئے تو وہ ابا کو مسلسل دیکھتاآیا تھااور وہ سنا کرتاتھا جو کوئی پوربی عورت اپنے مرد کو ’’ہمار مرد‘‘ پکارتی تھی تو اس کی نظر اپنے مرد کے سینے کے بھیگے ہوئے گھنے بالوں کی اَنی پر ہوتی تھی۔یہ نظار ہ محمد مخلص کو رشک سے پاٹ دیتا تھا اور چھید ہوئے پیسے کے چھید پر آنکھ رکھ کے وہ خیال ہی خیال مں دیکھتا تھا کہ اس کا سینہ بھی بالو ں سے بھر گیا ہے اور اس کی جواں مردی معتبر ہواچاہتی ہے۔
اباّ کی پالی ہوئی بچھیا جو گھر کے دوار پر گڑھی کے پاس والی ناند پر بندھی رہتی تھی ۔ایسی سدّھی تھی کہ کبھی پگہا تڑا کے نہیں بھاگتی تھی ۔اباّ اسے اپنے ہاتھ سے سانی کھلاتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ اس کی قربانی دی جائے لیکن اسے کب قربان کیا گیا اور اس کے گلے پر چھری پھیرتے ہوئے کس نے اپنی آنکھیں کچھ پل کے لئے بند کرلی تھیں ،شاید اس لئے کہ ایک تہذیبِ غم صرف شہر ہی نہیں ،گاؤں کی صورت میں بھی ان آنکھوں کے کھلنے تک باقی چلی آتی تھی۔تاہم یادداشت میں پچھلی برسات کچی دیواروں کے ڈھہہ پڑنے ،لنگوروں کے ہاتھوں نریوں تھپوؤں تلے سے پانی ٹپکنے اور بچے کچھے اثاثوں کے بھیگنے یہا ں تک کہ زیادہ سے زیادہ باڑھ سے ندی کے کنار ا گرنے کی بھیانک گونج سننے اور ندی کی سطح پر آدمیوں اور مویشیوں کے مُردوں اور چھپروں کو بے تحاشا بہتے دیکھنا سہل نہ تھا۔ لیکن زندگی مصر تھی کہ وہ کسی حال بھی اپنا غیر معمولی ہونا مسلسل باور کراتی رہی تھی۔ زندگی کو معلوم نہیں کیا ہوجاتاتھا کہ یکسانیت سے گریز پائی میں عجب ہئیتی سے باطن تک سرایت کرجاتی تھی یہاں تک کہ اگرجاڑا شروع ہوتے ہی سہ پہر کی دھوپ کی پیلاہٹ درودیوار کے سایہ سے مل کے ایک قسم کی سرد مہرا جارہ داری محسوس کرواتی ۔۔۔ان کمزورں اور حقیر معمولوں کو جن کے ذرا ذرا سے اندیشہ سے مساموں اور شریانوں میں کپکپی اور سہرن در آتی تو زندگی یکایک جیزے کے کھیت کے پچھواڑے انگوچھے لنگیا ں اور تہبند پہنے ہوئے جولاہے کی لڑکی کے سرکے بالوں میں ڈھیروں جوئیں پیداکردیتی کہ وہ بے اختیار کچی دیوار پھلانگ کے کسی غیر مقررہ نادان طلب کی کگار پر کھڑی ہوجاتی ۔تبھی زندگی مستعد ہوتی اور وہ اس نوجوان تیلی ،جو مذکورہ لڑکی پر فریفتہ تھا ،اس کی سرسوں کے تیل سے مل مل کے تربیت کی گئی اکساہٹ کو جگادیتی۔۔۔یا وہ یہ آگاہ کرنا چاہتی ہوگی کہ سرسوں کے تیل سے جوؤں کا کیا تعلق تھا!جبکہ نوجوان تیلی بج رنگ بلی کی پوجا کرتاتھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوتا کہ لڑکی خود اس طرف کا رخ کرتی ،جدھر انصاری پٹّی کے تازیہ والے چوک کے آس پاس پہر کی دھوپ کی پیلاہٹ پر نوجوان تیلی سرسوں کے تیل کی بوتل لئے اس کی باٹ جوہ رہا ہوتاتھا۔اتفاق سے انصاری پٹی کے زمیندار کی ڈیوڑھی کی دالان اکثر سنسان پڑی رہتی۔اس عمل میں وہ عرصہ کی دھوپ کی پیلاہٹ سے ڈیوڑھی کے درودیوار کے سایہ تک متجسس اور متحرک رہتاتھا ۔حالانکہ شام ہی سے راجہ جی کے بگیچے میں اتنی اوس پڑنے لگتی کہ گھاس اور خوردرو پودوں کی پتیّوں سے جاڑااتر اتر کے چہوں اور پھیل جاتا۔تاہم اس پھیلنے میں مٹی پر زندگی کے منظروں کی حرکت کو جامد کرنے کے لئے ایک طرح کی دبازت کا دباؤ ضرور پڑتاتھا۔صَرف ہوتی ہوئی ان عمروں کے سینوں پر جو اپنی اولاد کی پرور ش کرتی آرہی ہوں گی مگر بہت سے ادھورے ارمان لئے ہوئے کسی گھڑی بھی دنیا چھوڑ دینے کے لئے گن رہی ہوتیں اس دوران کیا دکھ ہوتا جب ان کے سینوں میں ایک ہوک کے ساتھ فطری حرارت نکل نکل کے انہیں خالی کررہی ہوتی اور محض اوپر سے چمڑے کی جھریوں کو گرمائی کا دھوکا دینے کے لئے الاؤ یا کوڑا تاپ تاپ کے عارضی تمازت تو حاصل ہوجاتی یا کلاؤ کے نمونے زبان پر جوانی کے دنوں کا حسرت گزیدہ سواد مل جاتا۔جبکہ دلائی رضائی اور پوال میں سمٹ سمٹا کے یا بورسی میں چنگاریوں کے بجھنے تک محض گرم راکھ پر اکتفا کرنے کے باؤجو د بھیتر کی ٹھٹرن تو کسی طور کم نہیں ہوتی تھی۔پھرایسا ہی کیوں ہونا تھا کہ جب ان سے کہا گیا۔۔۔عزاداری کون کرے گا توانہوں نے ہاں یا نہیں میں نہ ہی سرہلایا نہ ہی منہ سے کچھ بولے ۔شاید ان میں اتنی سکت ہی نہیں رہ گئی تھی کہ وہ اپنی نگرانی میں انصاری پٹّی اور ملکی پٹّی کے تازیانے تیارکرواتے ۔جبکہ آگے آگے تھے نوعمری کی چہل والے لڑکے لڑکیاں جو وہاں کے پانچ گاؤں کے تازیے دفن کیے جانے والے کربلا کی سمت ساتویں کی رات کو ہی امڈے پڑتے تھے ۔اتنے بڑے غم کی روایت کو وہ تفریح بنا کے عجب من سینا تو ضرور پیدا کردیتے تھے ۔ایسے میں دونوں چوک کے گرد باری باری سے تازیہ بٹھانے سے پہلے پھیرا لگانے اور نوحہ ومرثیہ پڑھتے لڑکوں کے ساتھ محمد مخلص کو کچھ زیادہ ہی ہوش میں بار بار اچھلتے کودتے ماتم کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاتھا۔دوسرے لڑکوں کے مقابلہ میں اپنا سر اونچا کرنے کی کوشش اس لئے تھی کہ شریفے کے بگیچے کی ملکیت والی لڑکی جو دیوار سے لگی دوسری لڑکیوں کے درمیان کھڑی تھی ،وہ اسے دیکھ لے اوراس کے اونچے ہوتے ہوئے سرکو پہچان لے ۔جبکہ مرثیہ سانس کے طول تک چڑھا جارہا تھا ۔
بلوا کے مدینہ سے پانی کو بھی ترسایا
ہرچند کہ محمد مخلص کی آس اور للک ڈھول تاشے ،جھانجھ اور گد کا کھیلنے والے لڑکوں کے شور میں بظاہر دب جاتی تھی۔لیکن سرد رات کو آنچ اور روشنی سے صنمیاتی بنانے والی الُگاٹیوں اور مسال سے عجب سوں ۔۔۔و۔۔۔وں۔۔۔ںں کی موسیقی ابھرتی تو ناتمامی کا تاثر بخشنے والا تسلسل منتظر دلوں کو بید ھتا ہوا گزرہا ہوتا۔ اس اثناء میں دیگوں میں گُڑ کی چائے کھولا تے ہوئے پھر کورے بھرکوں میں بھر بھر کے بانٹن والے ہاتھوں کچھ سخاوت جلوہ دے رہی ہوتی کہ بانٹن والے ہاتھ دکھائی نہ دیتے ۔البتہ گُڑ ،لونگ ،ادرک اور الائچی کی آمیزش سے بنی ہوئی گرم چائے کی کھلی دیگوں سے جو بھاپ اڑ رہی ہوتی اس سے ایک پل کو کچھ ایسا گمان ہوتا کہ تمام ملائکہ میں سے کوئی مقر ر کردیا گیا اور پوری کائنات دل پر برس رہی ہو۔بلکہ پہلی بارمحمد مخلص نے محسوس کیا کہ رات کی برکات وفیوض کے فرشتے کو دیکھنے کے لئے صرف خالص انسانی دل سے بنی ہوئی دنیا کی ضرورت تھی اور یہ دنیا تو ہوا کرتی تھی بہت سے آزاد اور راحتوں کو بہ یک وقت سموئے ہوئے اسی دنیا کے وہی لوگ تھے جن کے بطون میں ان کی اگلی پچھلی اور آنے والی نسلوں کی دستکیں سنی جاسکتی تھیں مگر افسوس کہ وہ لوگ اک اک کرکے اٹھتے جاتے تھے۔کسی پچھلی شب برات کو اماّ ں حلوے کی تیاری ادھوری چھوڑکے اٹھ ہی تو گئی تھی اسی لئے محمدمخلص کو اب کوئی اس طرف جانے سے روک نہیں سکتاتھا،جس طرف تو م نے علیحدگی کھینچی تھی یا تو اس احمق کی کہانی کے حوالے سے کسی راستہ پر ناک کی سیدھ میں جانے اور راستی کے درمیان فرق بتانے کی جرات کرسکتاتھا۔
حالانکہ دستاویز میں مدینہ جانے والے راستہ پر مختلف ایسی جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔جن سے اس کے سفر اور عارضی پڑاؤ کے بارے میں قیاس آرائی غالب ہے ۔
اماّں سے بچھڑ کے پہلی بار وہ اکیلا کیا ہوا تھا کہ آدم کی اولاد ہونے کے واسطے سے شائد اس پر خداوند نے ایک طویل نیند بھیجی تھی مگر افسوس کہ جب وہ اس نیند سے اٹھا تو یہ دیکھ کے بہت غمگین ہوا کہ اس کی پسلی خالی تھی۔
دستاویز میں یہ بھی درج ہے کہ پہلی بار علیحدگی کے اس طرف وہ پہنچا ہی تھا کہ معاشیات نے آلیا اور آٹھ برس گنوانے کے بعد شائد اپنی دانست میں وہ اپنے ایمان اور بے بضاعتی کے درمیان اتنا پچھتایا تھا کہ کچھ مدت کے لئے وہ مدینہ جانے والی راہ سے یا اپنے سفر کے راستے سے علیحدگی کے اس طرف لوٹ گیا تھا۔
اس کا خیال تھا یا اس نے اپنے خیال سے ایک دھندلی آس ترکیب کی تھی کہ اس کی طویل نیند سے پہلے کی دنیا کی کوئی ایک نشانی تو مل ہی جائے گی۔تین دن اور تین راتوں کی راہ پر مختلف منظروں کے جمگھٹ ایک کے بعد ایک سرکتے نیم گولائیوں میں چکراتے کچھ پیچھے چھوٹتے جاتے تھے۔البتہ کچھ آگے اور اسے پاس آتے ہوئے التباس میں کہیں کھنچ آتے تھے ۔جبکہ ٹیلگراف کے کھمبوں سے جڑے تارایک پوری رات کی طویل کھوہ میں چلے جاتے تھے یا شائد محمد مخلص جس ڈّبے میں سوار کھڑکی کے پا س کی سیٹ پر بیٹھا ٹیک لگائے سورہا تھا کہ نیچے آہنی پہیوں کی دبیز رگڑسے پلیٹ فارم پر کچھ دیر کے لئے رفتار کے ٹھہرتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔لگ بھگ رات کا پچھلا پہر رہا ہوگا۔تبھی اس کی نظر اڈیسن کے بلب پر پڑی تھی کہ جو ویٹینگ روم اور مال گودام کے درمیان کی دیوار سے لگا روشن تو ضرورتھا مگر رات کے کسی حصہ میں اس پر جو اوس پڑی تھی وہ اس کی شعاعوں کی بوچھار سے مل کے کچھ یوں جھمجھاتی محسوس ہوتی تھی کہ لگتا تھا محمد مخلص کی آنکھوں کی جاگتی دھند میں اس کے دل پر کائنات بھر کی اداسی اور حسرت برس رہی ہو! پھر جب سیٹی بجتے ہی رفتارپلیٹ فارم چھوڑنے لگی تو وہی بلب تھا اور اس کی شعاؤں کی بوچھار گرتی جھمجھماہٹ تھی جو کچھ یوں کہہ رہی تھی ۔۔۔جاتو رہے ہو بابو۔۔۔تم اپنی کھوئی ہوئی دنیا کی اور ۔۔۔پروہ ملے گی نہیں کہیں ۔۔۔پھر بھی اس کا دل ہی تو تھا جو یہ ماننے کے لئے آمادہ نہ تھا کہ وہ دنیا کھوگئی تھی یا نہیں کھوئی تھی !کیونکہ رفتارِ آخراس کے گاؤں کے اسٹیشن پر رکی تھی تو بہان ہورہاتھا اور اتفاق دیکھئے کہ وہ عین عید کے دن پہنچاتھا ۔عجلت میں پرانی یاد کی خوش جوشی سے پاؤں بھومی پر پڑتے نہ تھے ۔آہنی پٹری سے کچی ڈھال پر اتر کے وہ لگ بھگ بھاگنے کے انداز میں تیز تیز چلتے ہوئے کوئریوں کے گاؤں کے اینٹوں والے آنوے سے ملی ہوئی بیل گاڑی کی لیک کو پکڑ چکا تھا۔جبکہ دھوپ اتنی ضرور نکل آئی تھی کہ دھول میں سنی ہوئی لیک چمک رہی تھی ۔البتہ اس کے پچھمی اور میاں لوگوں کے کی عید گاہ کے احاطے پر نظر پڑتے ہی واضح معلوم پڑتا تھا کہ ابھی ابھی عید کی نماز ادا کرکے لوگ اپنے گھروں کی طرف گئے ہوں گے۔لیکن جس عید گاہ کے بیچ برگد کا پیڑ تھا اور ارد گرد قبرستان تھا بلکہ پورب اور ایک برساتی گڑھی بھی تھی اس کا راستہ تو کوئی اور ہوگا اور اس سے ملے ہوئے گاؤں میں میاں لوگوں کے علاوہ انچلی اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے گھر بھی تھے البتہ وہی اماّں کا نہیر تھا۔یہاں تک پہنچ کر اسے پوری طرح یاد آرہا تھا کہ اماّں جڑواں بچوں کو جنم دے کر مرجانے کے لئے ہی تو اپنے نیہیر گئی تھی ۔یعنی کہیں نہ کہیں وہ اتنے پاس سے بہت کچھ دیکھ رہا تھا کہ اس سے رہا نہ گیاجب اس نے ایک انارہ پر ڈھیکل کھینچتے ہوئے بوڑھے کو ئری سے محض تصدیق کی عادت بنا پر وہا ں کی نشانی بتا کے راستہ پوچھا تھا تو وہ ڈھیکل روک کے انارہ کی جگت سے اتر آیا اور سر سے انگوچھا لپیٹتے ہوئے ایک ہاتھ کو پھینکنے کے انداز سے اسے بتانے لگا تھا۔۔۔سیٹھ کا لو کت با!۔۔۔اس طرح لوکاتے ہوئے لہجہ میں کوئی بات اتنی مانوس لگتی تھی کہ وہ ایک دم پیداکیے گئے ہوش اور شوق کی حرارت سے اپنے پاؤں کو بھرابھرا ہوا پاکے دوڑ پڑا تھا۔بالکل ویسے ہی جیسے وہ بچپن میں اکثر لوہے کی گراری میں سیکچا لگاکے دوڑتے ہوئے لمبی دوریاں طے کیا کرتاتھا ۔سو ،اسے یہ گمان نہ ہوا تھا کہ وہ لگ بھگ ڈیڑھ کوس بھر کی راہ طے کرتے ہوئے کب عید گاہ والے برگد تلے پہنچاتھا ۔یہاں تک کہ عید کے دن کا یقین بھی اسے یہ دیکھ کے ہوا تھا کہ قبرستان کی کچھ قبروں کے آس پاس نصف یا تین چوتھائی کھائے ہوئے لکٹے ،ڈھنڈے ،تلوے ،اَندھر سے اور بجا بجا کے یا پھونک پھونک کے توڑی گئی پہیڑیاں بکھری پڑی تھیں ۔ایک قبر کے پاس اسے ایک ٹوٹا ہوا تُڑوا بھی ملا تھا ۔اس سے ایسی خوش بے تابی ہوئی تھی کہ لگا جیسے اس کا دل سینے سے سرک کے اس کی آنکھوں میں اترآئے گا۔ بالکل یہی حالت تھی یا کیفیت تھی کہ وہ ایک نصف دھنسی ہوئی قبر کے پاس ادھ بھلاوے میں جا بیٹھا تھا کہ وہاں ذرا دیر کے لئے ایک لوک دیومالائی دھند کی تجریدی تکون ابھر آئی تھی یا و ہ اسارے کے داسے سے لگا ہوا چولہا تھا اور اس کے پاس کے لِپے پُتے چوکھٹے پر ایک سینی میں ابلی ہوئی سوئیں رکھی تھی،ساتھ ہی تام چینی کی تھالی میں شکر اور کٹی ہوئی گری چھوہارے تھے ۔پاس ہی قوامی سوئیں والی پتیلی رکھی تھی ،البتہ بالائی والے دودھ کی کستری کو سکہر سے اتارکے چولہے کے اپلے کی دھیمی آنچ پر دوبارہ رکھ دیا گیا تھا۔اب سب کے درمیان اس نے اماّں کے چہرہ کو تشکیل ہوتے ہوئے دیکھا تھا ،جو بیٹے کو ابلی ہوئی اور قوامی دونوں قسم کی سوئیں کھلانے سے پہلے کی انتظار کی جھلک دیکھ رہا تھا ۔لیکن بس ذرا ساوہ چوک گیا تھا یاانجانے میں کیا ہواتھا کہ چینی کے جس پیالے میں اماّں اسے پہلے ابلی ہوئی سوئیں دینے والی تھی،وہ اپنی جگہ سے آپ ہی آپ لڑھک گیا تھا۔اس اثناء میں وہ شائدایک ادھوری ٹوٹی ہوئی پکار سے مشابہ لہجہ میں بول پڑاتھا۔’’اے اماّں سوئیں دے ۔۔۔سوئیں ‘‘تبھی اسے لگا کہ وہ پیالہ جس اور کو لڑھکا تھا ادھر ہی تو اماّں کی قبر کے دھنسے ہوئے حصہ کی ایک تکون تھی اور کچھ نہیں تھا۔بلکہ بلکہ دور دور تک بھی کچھ نہیں تھایا ایسا کچھ یکایک بدل گیا تھاکہ اسے نہ تو آسانی سے بدلہ ہواکہا جاسکتاتھا نہ ہی اسے کوئی نام دیاجاسکتاتھا۔
شاید اس کا کارن یہ بھی تھا کہ اس علاقہ میں جہاں ہر سال کبھی باڑھ اور کبھی کالی آندھی آتی تھی اور کبھی اکال پڑتاتھا۔یہاں تک کہ کتوں کے گلے میں اکثر گلٹیاں لگ جاتی تھیں،وہاں آدمیوں اور جانوروں کی کیمیائی مساوات سے اوپر کبھی ڈھیروں راکھ ،کبھی بے حساب مٹّی اور کبھی اتھاپانی گزر جاتاتھا۔بِن پانی کے مٹی کی سطح پر پڑنے والی ان گنت سوکھی سنٹی دراڑوں تلے و ہ تمام باب آپ ہی آپ بند ہوجاتے ۔جو ان کے جیتے جی ان گنت حوالوں اور واسطوں سے اکثر ایک دوسرے کی زبانی ایک دوسرے کی دانست میں باور کرائے جاتے رہے ہوں گے یاجو قوالی اور بھجن گانے کے باؤجود فسادات کی فصل بھی کاٹتے تھے،و ہ مُردوں کی کایا میں ڈھلتے ہی مٹی یا راکھ کی سطح کے اوپر کے سلسلے سے آپ ہی آپ منقطع ہوجاتے تھے۔تب ۔۔۔وہ نہیں بتاسکتے تھے کہ جب وہ جی رہے تھے تو ان کا جینا کیسا جیناتھا! ان کا دین دھرم کیاتھا!وہاں کس کی حکمرانی تھی ،کس کا راج تھا، زمینداری باقی رہ گئی تھی یا کسانو ں میں زمین مفت تقسیم کی جارہی تھی !کون ساالیکشن لڑاجارہاتھا !کون ہار رہے تھے !کون سی پارٹی جیت رہی تھی! گویا اب کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں زندہ رہنا اس پتلے ٹھیکرے کی طرح تھا کہ اسے محض چھچھلی کھیلنے کے لئے پانی کی سطح پر ذراسی مہارت سے ایک کنارے سے دوسر ے کنارے تک لگ بھگ اچھال دیا جاتا تھا تاہم وہ اس کنارے کو چھوتے ہی ڈوب جاتا تھا ۔شائد کوئی ایسی تہہ داری نہیں رہ گئی تھی کہ جس سے محمد مخلص کی دنیا کے کردار نمودار ہوتے ۔
یہاں سے یوں سمجھئے کہ ایک ضروری جانکاہ تفصیل رہ گئی تھی لیکن اسے بیان کیے جانے سے محض فساد کا اندیشہ تھا ۔
تاہم وہ جو ایک محلہ ہوتا تھا ۔اس میں کسی نامی گرامی عاشق کا گھر ہوا کرتا تھا اور وہیں ایک سوداگر ہوا کرتاتھا ۔سوداگر کی لڑکی بھی کیا بلا کی معشوقہ تھی کہ عاشق کو بدن بھی سپرد کیااور جان بھی سپرد کردی تھی تو مثل اس لڑکی کے یا بالکل ویسی ہی نہ سہی کچھ کم درجہ مگر معشوقہ ضرور ہونی چاہیے تھی۔پھر وہ آخر کس قبیل کی لڑکی تھی جو محمد مخلص کو اپنے پیچھے شہر کی زبان دانی اور تحت لہجہ کی نازکی کا لمس باور کراتی ہوئی اگلے وقتوں کے کسی نواب کی پرانی خستہ شکستہ حویلی کے باہری زینہ تک لے گئی تھی لیکن زینہ کے اوپر چکر دار کگار سے ملحق شائد کوئی فر ش غائب رہا ہوگا،بس اسی اور کو وہ اوجھل ہوگئی تھی۔تبھی وہ چونکنے سے زیادہ چہنک کے اپنے عقب میں کچھ دیکھنے لگا تھا۔سو آخری منظر میں وہ ایک ایسا بدنصیب گاہک رہ گیا تھا،جس کی کچھ نہ خریدنے کی محرومی اچانک جان لے گئی تھی۔آخر اپنی خفت مٹانے کے لئے اس نے وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے بساط بھر اپنے قلب کی آواز کسی اور کبھی نہیں سنائی دینے والی بازگشت خلق کرکے میر صاحب کی گوشہ نشینی کے آخری ایام تک انہیں مخاطب کیا تھا ۔۔۔’’میر صاحب۔۔۔ میں تویہاںآپ کی قبر تلاش کرنے آیا تھا ۔‘‘
پھر کچھ یوں ہوا تھا کہ اسے اس کی تصوری دلہن نے وہاں بلایا تھا کہ جہاں سرخ ناڑوں بھری کائنات کچھ ایسے مکان کی صورت تھی کہ جو انگور کی بیلوں سے لگ بھگ نصف ڈھکا ہوا تھااور نیم تاریک ،نیم روشن چھاؤں میں دلہن بیٹھی ہوئی تھی ۔اس کی ماں یعنی محمد مخلص کی خالہ دلہن یعنی اپنی بیٹی کے بالوں میں سرخ ربن باندھ رہی تھی۔لیکن جانے کیا ہو اتھا کہ وہ کائنات اس کے ہزار ڈھونڈنے سے بھی کہیں ملی نہیں ۔جبکہ وہ نئے شہر سے پرانے شہر کی طرف عین اس سڑک سے گزر رہا تھا ،جس پر کبھی بادشاہ کی سواری بڑی شان سے گزرا کرتی تھی۔باؤجود افسوس کہ مار بھی پڑی تھی تو کس کی !یاان دنوں کی ساری جمالیات کو یوں غارت ہونا تھا۔پناہ گاہ میں گزری ہوئی رات کی کسی گھڑی نیند اچٹ گئی تھی ،بس یونہی بہٹیا کے اس نے ساتھ کے تخت پر لیٹی ہوئی پناہ گاہ کی مالکہ کے پستانوں کو دانتوں اور زبان کے درمیان رک کے کچھ دیر چھبلایا تھا،صبح ہوئی تو دن چڑھے تک کھانے کو کچھ نہیں ملا تھا۔رمضان آ پڑا تھامگر وہ روزہ نہیں رکھ سکتاتھا۔کیونکہ اسے صرف بھوک اور پیاس سے گزرنا تھایاوہ اسی حالت میں نئے شہر کو پرانے سے ملانے والے پُل سے اترا ہی تھا کہ ادھوری سماعت میں ایک لفظ سنائی دیا تھا۔۔۔’’مدینہ‘‘تبھی اس کے سر پر کھٹی دھوپ آگری تھی۔ بلکہ بہ یک وقت اس کی بصارت اور سونگھنے کی صلاحیت کے درمیان انسانی خون سے ملتے جلتے تیل میں لتھڑے ہوئے اچار کا برتن آگیا۔پھر بھی حواس کو بٹورنے والی سکت بھر ا س نے ایک نظر بادشاہ کی وراثت پر کی تھی ۔جو پرانے شہر کے تاریخی مینارکی سمت سڑک پر سائیکل رکشہ چلا رہی تھی اور ازاربند بیچ رہی تھی۔وہیں پرانے بازا ر کے درمیان والی مسجد کے پاس وہ پہنچا تھاکہ مغرب کا وقت ہونے کو تھا۔روزہ کھلنے میں کچھ دیر باقی تھی اور لے دے کے ایک حیلہ تو یہی رہ گیا تھا کہ مسجد میں افطاری تو بالکل ویسے ہی آئی ہوگی جیسے اس کے گاؤں کی مسجد میں گھر گھر سے آیا کرتی تھی۔خلاف اس کے کہ اس کی نظرتاریخی شہر کی مسجد کے دروازے سے اندر کی طرف پڑی تو وہ یہ دیکھ کر بالکل مایوس ہوگیا تھا کہ بہت سے روزے دار ایک دوسرے سے پیٹھ موڑکے اکڑوں بیٹھے تھے اور ہر روزہ دار اپنے سامنے بازار سے خریدی ہوئی برائے نام افطاری کا دونہ رکھے ہوئے دوسرے کی نیت اور حاجت سے لاتعلق معلوم ہوتاتھا۔اس کے بعد کچھ دیکھنے کے لئے رہ ہی کیا گیا تھا۔اتفاق دیکھئے کہ وہاں سے لوٹتے ہوئے ۳۶گھنٹے کی راہ پر پھر وہی تاریخی بڑا شہر پڑتاتھاکہ جہاں مختلف قیاس آرائیوں کے بیان میں شامل اس کے ۴۰گاؤں والے تیسرے دادا گئے تھے تو جامع مسجد کے ہی محلہ میں ان کی برہنہ پیٹھ کے جلے ہوئے گلگلے کا کیا حشر ہواتھا۔
باؤجو د اس کے محمد مخلص کو تو ٹھگ لیا تھا اس عورت نے جو اپنے شوہر کے جسم سے اکتا کے اس کے جسم میں پنا ہ لینے آئی تھی اور اس کے لئے وہ اپنے محلہ سے دو بسیں بدل کے بارہ میل مئی جون کی دھوپ میں چلتی ہوئی اس سے ملنے آیا کرتی تھی ۔وہاں جہاں یونیورسٹی کے اسٹاف کے کوارٹروں کے گرد پیڑوں کے گھنے کنجوں میں مور بولتے تھے اور اس کے حصہ میں چار دانگ عالم کی خوبصورتی کا نزول ہوتا تھا،جب موروں کی آواز اس کی سماعت تک ایک کوارٹر کہ جس میں وہ ٹھہراہواتھاخواب گاہ کے فرش پر روشن سایہ بن جاتی تھی۔جب اس عورت کا رسمساتا بدن اس کے جسم کی پناہ میں پورے دن شام ڈھلے تک سانس لیتا تھا۔شائد ا س لئے بھی کہ محمد مخلص کی زندگی میں پہلی اور آخر ی بار کچھ دن کے لئے معاشیات مہربان ہوگئی تھی۔ لیکن اس دوران یہ معلوم نہیں تھا یا لذّتِ دوعالم کا نشہ طاری تھا۔افسوس کہ وہ عورت جس محلہ میں رہتی تھی اس میں کچھ عجب قبیل کے مسلمان رہتے تھے ۔ اس طرح کہ پرانی حکمرانیوں کی وراثت میں انہیں جہالت کی جو اجارہ داری ملی تھی ان کے بطون میں شامل ڈھیروں چربی، روغن اور سرخ مرچ سے ترکیب کی ہوئی تھی ۔بولتے اور گالیاں بکتے ہوئے ان کی گوشت گردی ،ان کے منہ اور نتھنوں سے خارج ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے بارے میں ایک روایت چلی آتی تھی کہ اگرکبھی انہیں کھانے میں ایک وقت گوشت میسر نہ آتا وہ کب کے دین ایمان سے پھر چکے ہوتے اس پر ستم یہ کہ ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے زور سے ہانکا لگانے والے انداز میں ایک کوچے سے دوسرے کوچے کے موڑتک بولتے چلے جاتے تھے اورٹوہ لیتے ہوئے اپنے کانوں کواپنی آنکھوں کے پیچھے لگادیتے مگر محض لالچ سے پیداہونے والی ضرورت کا ایک اپنا نادر دروازہ تھاجس میں ان کے ناموس کے ہی نام کی کمائی اکثر داخل ہورہی تھی۔سوجب انہیں کسی طرح معلوم ہوگیاتھا کہ ان کے محلہ کی عورت ،محلہ سے دور کسی محمد مخلص نام کے مرد سے ملنے جاتی ہے تو عورت مذکور کی واپسی والے راستے پر ہانکا لگانے لگے تھے تاہم کمائی کے لئے چور دروازہ بنانے کی کوشش اس لئے ناکام ہورہی تھی کہ مرد مذکور ان کی پہنچ اور گرفت سے نہ صرف دورٹھہرا ہوا تھا بلکہ وہاں تو موروں کی آوازوں کے کنج اور کچھ ایسے ہندؤں کے محلہ کے عملداری تھی جو کانوں کو آنکھوں کے پیچھے لگانا سرے سے جانتے ہی نہیں تھے اور اسی میں ایک عاشق کی عاشقی کی عافیت تھی ۔یعنی محمد مخلص جیسا عاشق اگر جرمِ عاشقی میں اپنی ہی قوم کے کچھ لوگوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکا ہوتا تو اس کے دل کی جگہ کون لیتا اور کون اپنے دل کو اپنے پاؤں میں ڈھال کے ہر بار مدینہ کی راہ کا قصد کرتا تو صر ف اس قصد کے لئے عاشق کا زندہ رہنا ضروری تھا۔ورنہ دشمنی تو اسے کسی قوم سے بھی نہیں تھی۔
جہاں تک صرف اپنی قوم کا تعلق تھا تو آخر وہ لوگ کون تھے جو علیحدگی کی تیسری طرف کے باشندوں میں شمار کیے گئے تھے ! باؤجود ا س کے کہ ان کا علاقہ ہریالی ،شاعری ، مصوری اور رقص وموسیقی سے بھی عبارت سمجھا جاتا رہاتھا اور جن کی روحوں میں آفات سماوی سے اٹھائے جاتے رہے، آزار بھی شامل ہوتے آئے تھے ۔پھر بھی گزر اوقات کے لئے وہ اپنی فصلوں میں مچھلیاں بھی بوتے تھے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مچھلیوں سے اتنی محبت کرتے تھے کہ انہیں اپنے دل کی راہ سے پیٹ میں اتار لیتے تھے لیکن پھر ایسا کیوں ہوا تھا کہ انہوں نے مچھلیوں کے خون میں انسانی خون بھی شامل کرلیاتھا۔تب یقین نہیں آتا تھا کہ وہ تمام ہریالی ،شاعری ،مصوری اور رقص وموسیقی کو بھول کیسے گئے تھے !
دستاویز میں یہ بھی درج ہے محمد مخلص نے مزید چھ برس گنواکے علیحدگی کے اس طرف سے علیحدگی کی دوسری طرف دوسری بار کوچ کیا تھا یا حرارتِ ایمانی کا ورثہ دوبارہ کہیں سے امنڈ آیا تھا اور کسی نے باور کرایا تھا کہ خدانہ خواستہ وہ مدینہ جانے والی راہ سے لوٹا نہیں تھا بلکہ اس کے قدم تو اسی طرف کوجارہے تھے ۔البتہ درمیان میں کہیں اس سے ایک قصور سرزد ہوا تھا کہ ایک پل کو کہیں اس کی آنکھ جھپکی تھی یا کھلی تھی ۔۔۔شائد وہ آدمی کی ماں تھی ۔وہ اپنے ہاتھوں میں ایک وقت کے کھانے کا نام کا ایک ٹکڑالئے کھڑ ی تھی یا محمد مخلص نے عقب سے دروازہ کھولتے ہوئے زینہ تلے کے ساتھ والی کوٹھری کی سمت سے نسائی آواز کی آدمیت سنی تھی ۔کم از کم اس آواز کا منشاعین رحمت تھامگر تبھی اپنے پاؤں پر ایک نظر کرتے ہوئے اسے یاد آیا کہ اس کی آدھی ٹوٹی ہوئی ربر کی چپل کسی معطل بادشاہ کی بنوائی ہوئی عظیم الشان مسجد کی دیوار کے پیچھے چھوٹ گئی تھی کیونکہ پہلی بار اس نے سنے سنائے قدیم تعیش کو محض دیکھا تھا کہ جو شراب وکباب اور آدمی کو عورت کے گوشت سے ترکیب کیا گیا تھا یا رنگین شیشوں ،گھنگروؤں اورموتیا کے باسی پھولوں سے آزمود ہ مکر بُنتے ہوئے نیم روشن اور گدلی تاریک گلیوں کا جمگھٹ دکھایا گیاتھا،لیکن وہ تو آدمی کی عورت کے گوشت کی سڑاند سے بچ بچا کے بھاگا تھایا ایڈیسن کی ایجادکے غلط استعمال سے اسے صدمہ پہنچا تھا۔کم از کم منٹو یہ دیکھنے کے لئے زندہ نہیں تھا کہ اس کے کردار اپنی باقیات کے اصرار کے باؤجود مررہے تھے ۔اسی لئے محمد مخلص کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ۹۰۰ سو سال میں کیا صرف ایک بادشاہ شیر شا ہ سوری تھا کہ جس کے سوا باقی تمام مسلمان بادشاہوں نے شاندار عمارتیں بنوانے کے سوا اور کیا کیا!کسی آدمی کے چلنے کے لئے برائے نام ایک راستہ بھی نہیں بنوایا ۔البتہ وہ نیم ساکت ہواجاتاتھاکہ آس پا س ادھر ادھر دور دور سے ایک غول چلا جاتاتھا۔پرانی داستانوں کے بیابانوں میں پائے جانے والے غولِ بیابانی کی مثل مگر ایک قسم کی تمسخر انہ سفاکی ملی ہوئی زندہ دلی تھی اس میں جسے نظر کے پھیلاؤ میں دیکھنے کی کوشش بہ ظاہر رائیگاں جاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی کیونکہ شروع ہی میں ایک ذلیل تجرید مربعوں اور مرلوں سے آدمی کے مقدر کو غصب کرتی ہوئی مسلط ہورہی تھی،یعنی اس حساب سے اس غولِ بیابانی کے بتدریج قریب آنے کا خوف لاحق ہوچلا تھا تو اسے بھاگنے کی عجلت میں محمد مخلص نے پیچھے پلٹ کے نہیں دیکھا تھا ۔حالانکہ پتھر ہوجانے کے خوف کے اردگرد آگے بہت آگے دور دراز تک مسلسل پتھر ہوتے رہنے کی تفصیل دھری ہوئی تھی۔ایسے میں محمد مخلص کو یہ بھی اندیشہ ہونے لگا تھا کہ مبادا اس کے پاؤں مدینہ جانے والی راہ سے بھٹک کے کسی گمراہ سمت سے نہ جالگیں ۔سو،اس کی دانست میں ایک واحد صورت تھی یہ جاننے کی کہ وہ آخر کس خطہ میں پہنچا تھا!مثلاٍ آثار توایسے دکھائی پڑتے تھے کہ شیر شاہ سوری نے جو طویل سڑک بنوائی تھی۔وہ وہیں کہیں پاس سے گزرتی تھی بلکہ کہا جاتاہے کہ وہ نیک بادشاہ تو اس سڑک کو اور بھی آگے مکہّ تک بنوانے کا قصد کررہا تھا ۔افسوس کہ اس کی تمنا اس لئے پوری نہیں ہوئی تھی کوہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکا تھالیکن محمد مخلص تو ابھی مرانہیں تھا اور ابھی تو یہ دیکھنا اس کی انتہائی بے بسی تھی کہ زمین پر اس کے حصہ کی یا اسے دی جانے والی پناہ کہا ں پڑی تھی !معلوم نہیں ،اس نے خود سے پوچھا یا کس سے پوچھا تھا کہ اگر زمین خدا کی ہے تو پناہ دینے کااختیار کسے دیا گیا!یا پنا ہ دینے والا ہوتا کون تھا!جبکہ دستاویز میں یہ بھی درج ہے کہ وہاں تو ایسی زمین بچھی ہوئی ملے گی کہ وہ آدمی کے حق میں بخشی ہوئی جائے نماز ہوگی اور وہ اس پر کعبے کی سمت کھڑا ہوکے نیت باندھے ،رکوع اور سجدہ میں جاکے دعا مانگتے ہوئے بالکل آزاد ہوگالیکن اگر اس کی ذرا سی بھی امید نظر آجاتی تو وہ نیک بادشاہ کی بنوائی ہوئی سڑک کے آثار پر چل پڑتا۔یہاں تک کہ اس کے خاتمہ تک چلتارہتا اور اگر وہاں تک پہنچنے میں کامیا ب ہوجاتاتو اس کے بعد تو بس اس کا قلب ہوتا،قلب کی جرات ایمانی ہوتی اس سے راہ بناتا ہوا وہ مکہّ پہنچ چکا ہوتااور جب مکہّ پہنچ چکا ہوتاتو وہاں سے مدینہ کتنی دور رہ جاتا!لیکن افسوس کہ نظریں تو سراسر مغائرت کا جغرافیہ تھا اور اس کی آب وہوا برائے نام تھی ۔ورنہ محمد مخلص کے قدم تو ان تھک مسافت طے کرتے ہوئے کہیں کچھ عرصہ پڑاؤ ڈالنا بھی چاہتے رہے ہوں گے ۔مشکل یہ تھی کہ آب وہوا کے نام پر نہ تو دور دراز تک آدمی کی پیاس بجھانے والا پانی نظر آتا تھا اور نہ ہی آدمی کی آدمیت کو کسی طرح کا لمس بخشنے والی ہوا کا گمان ہوتا تھا۔البتہ دن کے اوپر دن ،مہینہ کے اوپر ،مہینہ اورسال پر سال گزرتے جاتے تھے اور وہ تو ابھی مدینہ سے اتنا ہی دور تھا کہ جتنا علم کے حصول کے لئے کسی زمانہ میں چین ہوا کرتاتھا۔ستم یہ کہ جب وہ عمر کا نصف حصہ گزار کے دیکھنے اور سننے کے نتائج خود نکالنے کی حالت کو پہنچ چکاتھا۔باؤجود اس کے کہ محمد مخلص کواس کے ایمان کے حوالے سے بار بار ایک بہت بڑی آبادی باور کرائی جاتی اور آبادی میں مسلمانوں کی اکثر یت کا یقین بھی دلایا جاتا۔وہ حیران ہوکے پو چھتا پھرتا کہ کہاں ہے وہ مسلمان ،کہاں ہے وہ آدمی یعنی کوئی ایک مسلمان یاکوئی ایک آدمی تو اس کے سوا کوئی جواب نہیں مل سکتاتھا کہ ایک ملک بنایا گیا اور اسے کرہّ ارض پر دکھا بھی دیا گیا بلکہ دکھانے کے لئے کیا نہیں ہے !تاہم ایسے جواب کی توقع سے بہ یک وقت دل برداشتہ اوربے نیاز محمد مخلص یہ دریافت کرنے پر مصر تھا کہ مبادا آدمی کے حق میں کوئی آدمی مل جائے مگر جو کوئی بھی ملتا وہ سرے سے آدمی ہی نہیں ہوتایا اگر کہیں کسی پر آدمی ہونے کا معمولی گمان بھی ہوتا تو و ہ خطّ ابتلا میں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔یوں بے سبب جان جانے کے اندیشہ سے محمد مخلص کو بے تحاشا بھاگنا پڑتا۔خیال رہے کہ یہ بھاگنا ایسا نہ تھا جیسے پرانی داستانوں والی راہ میں کسی شہزادہ کی ملاقات جب کسی پیرِ دانا سے ہوتی تھی تو وہ اس کی کچھ ایسی راہنمائی کرتا تھا کہ وہ کسی بھی غولِ بیابانی کے نرغہ سے بچ کے بھاگ نکلتا تھا۔مطلب یہ کہ کوئی چشمِ بینا دیکھ سکتی تھی یا کوئی بھی صاحبِ حواس محسوس کرسکتاتھا کہ آخر محمد مخلص کو اپنی نوعیت کے انتہائی جانکاہ سفر کی راہ میں وہ سب کچھ کیا نظر آیا ہوگا،جو اس کے تجسس ،اندیشہ اور قوتِ حیرانی کو بہ یک وقت ہلاک کرسکتاتھا ۔کلہاڑیاں بارود یا اجابت خانوں میں نجس پتھروں کے ڈھیر جبکہ اطراف کی تفصیلات میں آدمی کے کے لئے کوئی جگہ نظر نہیں آتی تھی اور اگر کہیں آدمی کے التباس میں کسی جگہ کا گمان ہوتا بھی تھا تو وہاں آد،می کے قلب کی آبادی کے لئے گنجائش کم تھی اور جہاں سے کوئی گنجائش کمیات کی زد میں آتی تھی۔وہیں سے غیر آدمی یا کوئی علیحدہ مخلوق اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں اور برکتوں پر تجاوازات اجارہ کرتی ہوئی نظر آتی تھی ۔البتہ ان کے درمیان کبھی ہوا کا کوئی جھونکا درآتا تو ذرادیر کے لئے سماعت پر گمان ہوتاتھا کہ کسی بہت پرانی تہذیب کا نوحہ سنائی دے رہاہولیکن جلد اس نوحہ کی جگہ آدمی کی عورت کا زندہ یا مردہ گوشت لے لیتا تھا جو سننے سے زیادہ نظر آتاتھااور مویشیوں کی ہڈیاں بھی ۔انہیں اس طرح پڑے دیکھ کر نظر انداز کرتے ہوئے ایک دم آگے بڑھنا آسان نہیں تھا۔سماعت اگر ذرا ماورائے حدود جاکے انہیں لمس کرسکتی ۔تب بھی مویشیوں کی روحوں کو سننے کی تاب نہیں لاسکتی تھی جو اپنے نامعلوم مسکن سے محمد مخلص کے تعاقب میں ایک طرح کا مکعبی یا دائرہ گیرتجریدی جال پھیلائے ہوئے خطۂ مذکور کی برّی ،بحری اور فضائی حدود پر مسلط تھی۔ایسا معلوم ہوتاتھا کہ کچھ اس کے اپنے خصوصی تجاوازت تھے ،جن پر اجارہ کیے ہوئے وہ اپنے نمائندوں ،کارندوں اور ہرکاروں کو خطۂ مذکور کی جگہ جگہ کے ذرہ ذرہ بلکہ ذرہ زرہ کے ہزارویں حصہ کی اطلاعاتی مہم پر مقرر کرتی ہوئی مقتدر معلوم ہوتی تھی۔کچھ برسوں سے تو آدمی کو شکار کرنے کی اس کی ہوس میں اتنا جنون شامل ہوچلا تھاکہ اس کی طرف سے ہر تھوڑے تھوڑے دنوں بعد کسی انجانی سمت سے بالکل بے خبر اور انجانے میں اچانک حملہ ہوتا اور چشم زدن میںآدمی کی نباتات کی جگہ بس خاک اڑ رہی ہوتی ۔حالانکہ مہابھارت کی کتھا میں ایک ایسی بلا کا ذکر ہے کہ کسی بستی کے باہر جنگل میں ایک آدم خور راکھچس نے اپنا ٹھکانا بنالیاتھا۔ہر دن وہ اچانک بستی میں آکے کسی نہ کسی آدمی کا شکار کرتا۔بستی میں ہاہاکار مچ گیاْ۔ایک دن وہاں کے ذمہ دار لوگوں نے اس راکچھس سے رجوع کیا اور اس سے معاہدہ کیا کہ اب اس کے ہر دن کے شکار کے لئے باری باندھ دی جائے گی ۔معاہدہ کو مان کر راکھچس ہر دن اسی آدمی کا شکار کرتاجس کی باری ہوتی ۔ایک دن کرنا کچھ ایسا ہوا کہ ایک برہمن نوجوان کی باری آگئی جبکہ وہ اپنی بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔تبھی وہاں سے ارجن کا گزر ہوا تمام حال معلوم کیا اور جھٹ اس راکچھس کے خاتمہ کا فیصلہ کرلیا۔کہا جاتا ہے کہ ارجن نے اس راکھچس سے جنگ کی اور اسے ہلاک کرکے نہ صرف اس بیوہ ماں کے اکلوتے بیٹے کو بچالیا بلکہ پوری بستی میں شانتی قائم کردی ۔
خلاف اس کے خطہّ مذکور کا چلن ہی کچھ اور تھا۔اس سے پہلے کہ آدمی کے ناموں کی باقیات یا بچی کچھی نشانیوں کی طرف سے دہائی یا فریاد کے ایک لفظ یا ایک ادنی تاثر کو ادا کیاجاتا اس بلا کی جانب سے اس کے کسی نمائندہ یا کارندہ یا ہرکارے کی زبانی تعزیت کی جارہی ہوتی ۔یہاں تک فاتحہ خوانی تک پہنچتے پہنچتے اتنی تشہیر ہوجاتی کہ جینے مرنے کی تمام اہمیتیں معلوم نہیں کن دبیز پرتوں میں دب جاتیں۔گویا موت نہ تھی اسکی معمول تھی اور وہ اس کی عامل تھی ۔مزید یہ کہ وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوچکی تھی کہ مرنا تو شروع ہی سے مسلمانوں کے عام رہن سہن میں ان کے روز مرہ کے ہاتھ منہ دھونے جیسے معمولات کا حصہ رہا ہے ۔جب کہ تجاوازت اور کمیات کے درمیان محمد مخلص کے جسم کی کایا کو بہ مشکل دیکھاتو جاسکتاتھا۔مگر یہ کہنا ناممکن تھا کہ اس کے پاؤں آگے چلتے رہنے کی آرزو کے خلاف ساکن تھے یا کھسک کھسک کے چلنے کے گمان میں گزرتے جاتے تھے تاہم یہ کسی طرح شمار نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کسی کے پاؤں سے دبا کے کچلنے کے ذیلی اختیار کے قبیل کے بے شمارذیلی اختیارات سے بے رحم اجارہ داری ترکیب کی جارہی تھیں ۔تبھی ذرا غور سے دیکھنے پہ کہ ہرچند ان کی ہئیت مسلمانوں کی تھی مگر شہر تو ان کے رہن سہن کے حساب سے بھلا کیا تھا،شاندار پُرتعیش مکانوں کا بے ربط اور بے معنی مجموعہ تھا یا مصنوعی اسلامی ناموں اور عبارتوں کا ڈھیرتھا جبکہ زندہ رہنے کی انتہائی ضرورتوں سے ترسی ہوئی ایک خلقت کو قبل از وقت ہی جنازہ کی ہئیت سے ڈرا ڈرا کے عبادت کروانے والے خو د کیا تھے اغذائی اور شہوانی تموج کے اجارہ دار۔۔۔مگر اس آزمودہ ترکیب سے کہ صرف منہ سے آزمودہ اسلامی ساخت کے فقرے ،آوازے اور نعرے اچھالتے باقی جسم کی بناوٹ سے سب سے بڑھ کر اپنی سرشت سے سور اورصرف سور نظر آتے تھے ۔ان کے اعضا کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ نتھنوں اور ہونٹوں سے تھوتھنی نکلی ہوئی نمایاں نظر آتی تھی۔سب سے بڑھ کے گردن جو چھترے ہوئے کھابڑ بالوں کی کڑی اکڑ سے کوتاہ بن گئی تھی۔یعنی ایسے بال جنہیں سیکڑوں سال پرانی قبائلی سنگلاخی یابہت بعد کی مغربی ترقیوں سے بھیک میں ملی ہوئی مادی بے حسی نے بھلا کیسے اگایا ہوگا کہ پیٹھ ،پیٹ ،ناک اور ٹانگوں تک چکٹ چکتے سے معلوم ہوتے تھے البتہ ان کے مجرب کولہوں کی چربی کی نمائش اس وقت زیادہ بڑھ جاتی جب کبھی ان کی تحویل میں آدمی کی عورت کا زندہ یا مردہ گوشت آجاتا۔اس طرح کہ ہر تیسرے مکان میں بن بیاہی عمروں کے مردے یونہی پڑے ہوئے سڑرہے تھے۔کوئی باہر سے آکے انہیں اٹھاکے لے جانے والا یا دفن کرنے والا دولہا نظر نہیں آتا تھا۔خلاف اس کے ان گنت محرومیوں کے پڑوس میں انتہائی دریدہ دہنی سے شادی کے کھانے پکائے اور کھائے جارہے ہوتے تو ان سے آدمی کے مردے سے پھولنے والی بوُجیسی بوُ آرہی ہوتی ۔ایسے میں تصوری گنجائش نکلتی تھی تو کہاں سے!جب کہ کسی بھی انسانی قدم کے امکان سے پہلے ایک طرف تو موت خط تنسیخ کھینچتی ہوئی چلی آتی تھی اور دوسری طرف سورؤں کے غول کے غول پھرتے تھے ۔ایسا معلوم ہوتاتھاکہ ایک خط مذکور تو کیا،دنیا کے کسی خطہّ میں اب کوئی انسانی معاشرہ باقی نہیں رہا تھا۔آخر ایک شام جو تجاوازات اور کمیات پراتری ہوئی تھی یا اس کیمیائی الجھن سے کوئی سروس لین گزرتی تھی یا ایسا ہی کوئی گمان مشابہ دھوکا ہواہوگااس سے کسی گنجائش کے نام کا مکر میسر آیا ہوگا کہ جس پر محمد مخلص اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے فریا دکررہا تھا۔
یا رسول اللہ۔۔۔میں محمد مخلص۔۔۔مدینہ جانے والی راہ کا مسافر تھا۔۔۔لیکن مدینہ نہیں پہنچ سکا۔آپ رحمت اللعامین ہیں ۔لیکن ادھر بھی ایک نظرکرم۔۔۔کہ میں ان گنت کراہوں ،آہوں ،سسکیوں اورآنسوؤں کا مجموعہ ہوں ۔جو الم مجھ پر گزر رہے ہیں انہیں میں آپ سے نہ کہوں تو کس سے کہوں !آپ اللہ کے حبیب ہیں ۔آپ نورَ آدم ہیں۔آپ سرکارِدوعالم ہں ۔آپ سرورِ کونین ہیں ۔مجھ پر رحم فرمائیے کہ میرے پاؤں تلے سے میری زندگی چھیننے کے لئے سیاہ خانوں میں تیاریاں کی جارہی ہیں اور یہ تیاریاں کرنے والے آپ ہی کے اسمِ مبارک کا حوالہ دیتے ہیں ۔وہ میرے پاؤں سے بننے والے قدموں کے تعاقب میں بارود،کلہاڑیوں اور نجس پتھروں کی یلغار کرنے والے ہیں !یاتاجدارِ مدینہ ! مجھ پر رحم کیجئے کہ میری بے کسی سے منسوب ایک خلقت داناپانی تو کجااب تو اک اک سانس کو ترستی ہے ۔جدھر بھی نظر جاتی ہے مٹی نظر نہیں آتی۔جینے کی تمنا میں اٹھتے بیٹھتے یا آنے والی موت کی نیند سے پہلے کی نیند بھر سولینے یا گھڑی بھر جاگنے کے دھوکے میں آدمی کے قدموں سے منسوب راستہ بھی آدمی ہی کے لہو میں ڈوبا نظر آتاہے ۔الہام کو جلا وطن کردیا گیا ہے ۔۔۔وہ گزرگاہ کہ جس پر کبھی ملائکہ گزرتے رہے ہوں نظر نہیں آتی۔یا رسول اللہ اس سے پہلے کہ میری زندگی مجھ سے زیادہ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں ختم ہو،مسلمانوں کو مسلمانوں سے بچالیجئے ۔