فریضہ ہے سو ہم نبھایا کریں گے
فریضہ ہے سو ہم نبھایا کریں گے
چراغوں کو مجلس میں لایا کریں گے
اندھیروں اجالوں کی ہے یہ لڑائی
بجھاؤ گے تم ہم جلایا کریں گے
چھپاؤ گے چہرہ کہاں تک تم اپنا
ہم اک آئنہ بن کے آیا کریں گے
سبھی در اگر بند کرکے بھی بیٹھو
عیاں ہو کے پھر بھی دکھایا کریں گے
کبھی گھر ہمیں بھی بلا کر تو دیکھو
تمہیں ہم تمہیں سے ملایا کریں گے
عدو ہے تمہارا تمہارے ہی اندر
خودی سے تمہیں ہم بچایا کریں گے
انا کا اگر بوجھ کم کر سکو تو
یہ وعدہ ہے سر پہ بٹھایا کریں گے
نواؔ جانتے ہیں کہ کیا ہے صداقت
جہاں پر دکھی سر جھکایا کریں گے