غزل: فقط الزام ہوتی جا رہی ہے
فقَط الزام ہوتی جا رہی ہے
فقَط اِلزام ہوتی جا رہی ہے
دِلِ ناکام ہوتی جا رہی ہے
کہانی کار!! میری داستاں کیوں
یہِیں انجام ہوتی جا رہی ہے؟؟؟
اِسی نے عُمر بھر رکّھا تھا پیاسا
یہی اب جام ہوتی جا رہی ہے
ہمارے واسطے دیوانگی بھی
عجَب اِنعام ہوتی جا رہی ہے
امیرِ شہر ، تیری نیک نامی
بس اب بدنام ہوتی جا رہی ہے
الَگ پیغام ہوتی جا رہی ہے
تمہارے نام ہوتی جا رہی ہے
کبھی جو بات ہم سے رِہ گئی تھی
وہی پیغام ہوتی جا رہی ہے
چلو اب اور کوئی کام کر لیں
محَبّت عام ہوتی جا رہی ہے
اُٹھو حمّاد ، گھر کو لوٹ جائیں
کہ یارا ، شام ہوتی جا رہی ہے
۔۔۔۔
بحر : ہزج مسدس محذوف (مفاعیلن مفاعیلن فعُولن)