فن اخبار نویسی
یورپ اور امریکہ نے جو آج کل حیرت انگیز ترقی کی ہے، اور علوم و فنون، تہذیب و شائستگی میں جوان کا آج طوطی بول رہا ہے، ان میں من جملہ اور اسباب ترقی سے ایک بڑا سبب اخبار دیکھنا ہے، جسے اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک اور بچے سے لے کر بوڑھے تک روزانہ ہر ایک دیکھا کرتا ہے اور علمی و عملی فیوضات حاصل کرتا ہے۔ چوں کہ کچھ عرصہ سے ہندوستان اور پنجاب میں بھی اخباروں کا چرچا ہو رہا ہے۔ اکثر اردو اخبارات ترقی کر رہے ہیں، لوگوں کو ایک حد تک ان سے دلچسپی بھی ہو گئی ہے، اس لیے ہم اس فن کی مختصر تاریخ اور اس کے اقسام وغیرہ بیان کرتے ہیں۔
اخبار کا موجد اس بارے میں سخت اختلاف ہے کہ اخبار کا موجد کون ہے، چین والے اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کی ایجاد کرنے والے ہم ہیں۔ روما والے مدعی ہیں کہ جناب مسیح علیہ السلام سے کئی سال پیشتر ہم نے جاری کیا تھا۔ لیکن یہ تمام باتیں پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، کیوں کہ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فی الواقع اہل چین یا اہل روما اس کے موجد ہیں، اور سیکڑوں برس پہلے یہ شائع کر چکے ہیں تو بھی ان کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ ہم جس اخبار کا بیان کر رہے ہیں، اور اخبار سے جو مفہوم بالفعل سمجھا جاتا ہے، اس میں اور اس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ والشتان بینہ۔ اخبار جب ہی اخبار ہو سکتا ہے جب کہ اس کے متعدد نسخے اشاعت کی غرض سے موجود ہوں، اور ساتھ ہی مختلف مقامات میں بھیجنے کے آسان وسائل بھی میسر ہوں۔ اور یقیناً اس زمانے میں یہ تمام باتیں مفقود تھیں۔ نہ تو مطبع تھا کہ دس چھوڑ ہزار نسخے بہم ہو جائیں۔ اور نہ یہ انتظام ریل تھا کہ جہاں چاہیں مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک بھیج دیں۔ اس لیے اس زمانے کے اخبار پر اخبار کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ بس اخبار جب ہی سے اخبار ہوسکتا ہے جب سے یہ چھاپہ خانہ ایجاد ہوا ہے، اس اعتبار سے اس چیز کی ایجاد کا سہرا اہل جرمن کے سر باندھنا چاہیے، جنہوں نے پندرھویں صدی عیسوی میں پہلا اخبار دنیا میں پیش کیا، اور ہمارے نزدیک پہلے پہل یہی اخبار شائع ہوا۔ والعلم عند اللہ۔ انگلستان انگلستان میں پہلے پہل اخبار ۱۶۲۲ء میں جاری ہوا۔ یہ وہی اخبار ہے جو آج کل ٹائمز کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ پہلے اس کا نام ویکلی نیوز تھا۔ پھر ۱۷۸۵ء سے ٹائمزکا نام اختیار کر چکا ہے، اس کے بعد ٹیٹلر وغیرہ اسٹیل اور اڈیسن نے شائع کیے، اور پھر گویا یہ راستہ سبھوں کو معلوم ہو گیا۔ لیکن اس کی اصل داغ بیل انگلستان میں ویکلی نیوز ہی نے ڈالی۔ فرانسفرانس میں پہلا اخبار ۱۶۳۱ء میں شائع ہوا۔ جس کا نام گزٹ دی فرانس تھا۔ اس میں زیادہ تر ملکی معاملات پر بحث ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد بہت سے اخبار شائع ہوئے، لیکن ابتداء میں فرانس سے ۱۶۳۱ء ہی کو اخبار نکلا۔ روس روس میں پہلا اخبار ۱۷۰۳ء میں شائع ہوا۔ امریکہ یہ کون نہیں جانتا کہ جو ترقی امریکہ نے اخبارات میں کی ہے وہ یورپ کو نصیب نہیں ہوئی۔ بڑی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اخبار یہاں سے پہلے پہل ۱۷۰۳ء میں شائع ہوا۔ اس کا نام بوسٹن نیوز لیٹر تھا اور اس کا دفتر شمالی امریکہ میں تھا۔ اس سے قبل اہلِ امریکہ جانتے بھی نہ تھے کہ اخبار کیا چیز ہے۔ آج جو ترقی امریکہ کو نصیب ہوئی ہے وہ بہت کچھ اخبار ہی کی بدولت ہے۔ اخبار کی قسمیں یورپ میں جہاں اس مفید اخبار نویسی نے اعلیٰ درجے کی ترقی کی ہے۔ اخبار کی بہت سی قسمیں ہو گئی ہیں۔ اور ہر ایک قسم کے اخبار ایک نہیں سیکڑوں شائع ہوتے ہیں۔ مگر اس کی مفید اقسام اور اعلیٰ مضامین یہ ہیں، اقسامگزٹ، میگزین، ریویو، جرنل وغیرہمضامینمذہبی، تعلیمی، تجارتی، قومی، ٹیکنیکل وغیرہاخبارکی تعریف چوں کہ اخبار کے بانی اور موجد اہل یورپ ہیں، اس لیے انہیں کی تعریف ہمارے نزدیک معتبر ہے۔ اخبار جمع ہے خبر کی۔ خبر کو انگریزی میں نیوز کہتے ہیں۔ نیوز میں چار حرف ہیں۔ NEWSیہ چار حرف ان چار لفظوں کا اشارہ کرتے ہیں، (۱) N (اشارہ ہے) North کا جس کے معنی ہیں شمال۔ (۲) E (اشارہ ہے) East کا جس کے معنی ہیں مشرق۔ (۳) W (اشارہ ہے) West کا جس کے معنی ہیں مغرب۔ (۴) S (اشارہ ہے) South کا جس کے معنی ہیں جنوب۔ اب دیکھو کہ اس چھوٹے سے جملے میں کتنی بڑی وسعت ہے کہ جہات اربعہ کو لئے ہوئے ہے۔ بس اخبار کی تعریف یہ ہوئی کہ وہ مجموعہ اک وقت معین پر شائع ہونے والا جس میں مغرب، مشرق، جنوب، شمال کی تمام خبریں اور ان جہات اربعہ کے متعلق مفید باتیں درج ہوں۔ اخبار کے فوائد ناظرین! کیا اخبار کے سوا دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی ایسی دور بین ہے جس سے آپ دنیا کو اپنا منظر بنا سکیں؟ اور کیا اخبار کے سوا کوئی اونچے سے اونچا بلند مقام یا کوئی پہاڑ ہے جس پر بیٹھ کر آپ تمام دنیا کا مظاہرہ کر سکیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! نہ دنیا میں کوئی ایسی دوربین ہے نہ کوئی ایسا بلند مقام ہے۔ یہ صرف اخبار ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ملاحظےسے آپ تمام دنیا کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اور جس کے حاصل کرنے سے آپ تمام دنیا کے نظارے حاصل کر سکتے ہیں۔ پچھلے زمانے میں واقفیت اور معلومات حاصل کرنے کا، عجائبات عالم دیکھنے کا، سوائے سفر کے دوسرا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ مگر اس میں علاوہ صرف کثیر کے کہ جس کی وجہ سے غریب اور مفلس شخص اس سے مستفیض نہیں ہوسکتا، محنت، تکلیف اور پریشانی بہت تھی، اور بعض اوقات خود جان کا خطرہ تھا۔ علاوہ بریں اگر ایک شخص متعلقین کی جدائی اور پریشانیوں کا متحمل بھی ہوتا، اور تمام عمر سیاحی بھی اختیار کرتا، جب بھی تمام دنیا کی سیرنہیں کرسکتا تھا لیکن اخبار ایک ایسی چیز ہے کہ گھر بیٹھے بلامحنت و مشقت تمام دنیا کی سیر کرے اور معلومات اور عجائبات عالم کی سیر سے طبیعت کو محظوظ کرے۔ یورپ میں اخبار سلطنت کا ایک جزو اعظم سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ رعیت کے خیالات کی باگ فی الواقع اخبار کے ہاتھ میں ہے۔ پرنس بسمارک کی کیفیت یہ تھی کہ جب کبھی معاملات ملکی میں اسے کوئی خاص طرز اختیار کرنی ہوتی تھی تو اس سے قبل ہی وہ اخبار میں تاکیدی مضامین شائع کرا دیتا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام ملک اس کا ہم زبان ہوکر اسی کا کلمہ پڑھنے لگتا تھا۔ یورپ کے اخباروں کو آج وہ طاقت حاصل ہے کہ جو چاہیں سو کریں، ایک سے دوسرے کی جنگ کرا دیں یا کسی جنگ میں صلح کرا دیں یا ایک کا ملک چھنوا کر دوسرے کو دلوا دیں۔ کسی عہدہ دار کو معزول کرانا اور کسی ادنیٰ شخص کو اعلیٰ عہدے دار بنانا ان اخبار ات کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اخبار کی خاص صفتیں اخبار گورنمنٹ کے حقوق اور منشا کی حفاظت کرتا اور رعایا کے حقوق گورنمنٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اخبار علمی مذاق ہر طور سے پھیلاتا ہے، اور قابلِ توجہ باتوں پر توجہ دلاتا ہے۔ اخبار غیر ملکوں کی اچھی باتوں کو ہم تک پہنچاتا ہے۔ اور ہماری باتوں کی ان تک اشاعت کرتا ہے۔ اخبار ہر ملک کے حالات، رسم و رواج، آب و ہوا، طرز معاشرت، طرز حکومت، مذاہب، عادات و اخلاق، قوانین سلطنت، جھگڑے فساد، جنگ وجدل کو اخباری حیثیت سے لکھتا ہے، اور ان پر بحث کرتا ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی اور اچھے کو برے سے جدا کرتا ہے۔ اخبار ناظرین کی معلومات کو بڑھاتا ہے، اور ان کے علم کو جلا دیتا ہے۔ اخبار غلط خیالوں کی تردید کرتا ہے، اور سچے خیالوں کی تائید کرتا ہے۔ اخبار انسان کی تعریف اور فضیلت انسانیت بیان کر کے رؤسا اور امرا کو انسانیت کی جانب بلاتا ہے۔ اور ان کو علوم و صنائع وحرفت کی تعلیم عام کرنے اور مریضوں کو دوا اور علاج کے نئے مدرسے اور نئے شفاخانے قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اخبار فوائدِعدالت بیان کر کے حاکم کو اس کی جانب توجہ دلاتا ہے اور گویا تمام رعایا کی وکالت کرتا ہے۔ ان کی فریاد اور شکایتوں کو گوشِ حکومت تک پہنچاتا ہے۔ اخبار حکام اور عمال اور معمورین رشوت خور اور ظالموں کے ظلم و جبر کے رفع کرنے میں کوشش کرتا ہے، اور منتظمینِ اعلیٰ کو اس کی اطلاع دے کر اس کا کافی انسداد کرتا ہے۔ اخبار ہر ایک عالم عاقل کی امانت افکار اور ودیعت خیالات کو دوسرے عالم، عاقل کی نگاہوں اور کانوں تک پہنچاتا ہے، اور علماء، عقلا کو ایک دوسرے سے آگاہ کرتا، اور مبادلۂ خیال کا موقع دیتا ہے۔ اخبار اپنی قوم کے اجزائے پراگندہ اور اعضائے متفرقہ کو یک جا کر کے حیاتِ تازہ بخشتا ہے، اور از سر نو زندہ کرتا ہے۔ اخبار اپنے ناظرین کو بیٹھے بٹھائے تمام عالم کی سیر و سیاحت سے تجربہ کار بناتا اور خوش اور محظوظ و مسرور کرتا ہے۔ اخباردوست دارانِ اُمت اور محبانِ قوم کو دشمنوں اور عدوؤں سے جدا کرتا ہے، اور لباسِ کذب اور پردہ فریب کو چاک چاک کر دیتا ہے۔ اخبار شر اور بدبختی کی گھاٹیوں اور مکین گاہوں سے بچانے کی غرض سے خبر دے کر خیر اور سعادت، نیک بختی اور بصیرت کی شاہراہوں کا راستہ بتاتا ہے تاکہ قوم بری راہ نہ چلے، اور صراطِ مستقیم سے منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔ اخبار جس چیز میں ملک کا فائدہ دیکھتا ہے، فوراً اسے محبتانہ الفاظ میں قوم پر ظاہر کر دیتا ہے، اور نکتہ چینی اور اعتراض کی راہ سے ہمیشہ بچتا رہتا ہے۔ اخبار ایسے ضروری امورات اور معارف کا جن کا جاننا ہر فرد بشر پر ضروری ہے، عام فہم عبارت میں، جس سے عوام الناس کا انتباہ ہو، ذکر کرتا ہے۔ اخبار پست ہمتوں کے برانگیختہ کرنے اور مردہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لیے ملک کی دلچسپ ترقیات اور حالات کو اور صالحین کے کارناموں کو نہایت مؤثرالفاظ میں بیان کرتا ہے، اور ان کے عمدہ خصائل کو بیان کر کے قوم کو ان کی تقلید پر آمادہ کرتا ہے کہ تذکرۃ الاسلاف تبصرۃ الاخلاف ہے۔
اخبار ہمیشہ اخلاق جمیلہ اور خصائل پسندیدہ کے اوصاف اور عادات رذیلہ کے نقصانات بیان کرکے قوم کو اچھی باتوں پر مائل اور بری باتوں سے متنفر کرتا ہے۔ اخبار سے ذہن اور عقل میں ترقی ہوتی ہے، اور علمی مذاق بڑھتا ہے۔ الغرض اخبار کے فوائد بے شمار ہیں جن کے بیان سے اتنا کہہ دینا بہتر ہے کہ جو شخص دنیا میں اپنے برے بھلے کی تمیز کرنا چاہے، اور دنیا میں رہ کر دنیا کی عمدہ باتوں کو حاصل کرنا اور بری باتوں کو چھوڑنا چاہے، حقائق و معارف اور مختلف علمی و عملی معلومات کا شوق رکھتا ہو، اور دنیا میں مہذب اور شائستہ، عاقل و فرزانہ ہوکر رہنا چاہے، اور گھر بیٹھے بلا صرف و خرچ ایک استاد شفیق تلاش کرنا ہو تو وہ اخبار بینی اختیار کرے۔ اخبار آپ کو بتاتا ہے کہ دیکھو! فلاں ملک میں فلاں شخص نے یوں ادنیٰ حالت سے اعلیٰ درجے تک ترقی کی، اور عزت ووقعت یوں حاصل کی، وہ ایک معمولی مفلس شخص تھا مگر تھوڑے دنوں میں دولت مند ہو گیا۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ تعصب اور نفسانیات کو بالائے طاق رکھ کر بے تعصبی اور سلامت روی کا سبق یاد کر لیا تھا، اگر تم بھی ویسے ہی ترقی کے زینے طے کرکے اعلیٰ مینار پر پہنچنا چاہتے ہو تو اسی شخص کے قدم بہ قدم چلو، اپنے مقصد میں کامیاب ہوگے۔ اخبار ایک قومی ہادی ہے اخبار در اصل ایک زندہ ہادی ہے جو ہر قسم کی باتوں میں ہدایت کرتا ہے، بری باتوں سے تنفر دلاتا ہے، اور عمدہ باتوں کی جانب مائل کرتا ہے، کیوں کہ انسان کی طبیعت میں اک ایسی زبردست قوت گمراہ کنندہ موجود ہے کہ راستے کو چھوڑ کر شقاوت کی تنگ و تاریک اور خوفناک و پیچ دار گھاٹیوں تک آنکھ بند کیے بڑھ جاتا ہے۔ اور اس بدبختی کے مقام پر خوش قسمتی کے راستے تلاش کرتا ہے، اورجب تک کوئی خضر صفت رہبر اس کا ہاتھ پکڑ کر منزل مقصود تک نہ پہنچائے، وہ یوں ہی پریشان و سرگرداں رہتا ہے۔ اس لیے قوم اور فرد کو ایک ہادی اور رہبر کی سخت ضرورت ہے اور بے اس کے کوئی بھی صراط مستقیم پر نہیں چل سکتا۔ پس حالت موجود کے اعتبار سے اخبار سے بڑھ کر قوم کا کوئی ہادی اور رہبر نہیں ہے۔ جو اسے سیدھی راہ پر چلانے میں مددگار اور ترقی کا بدل و جان خواستگار ہو۔ اخبار کے متعلق نامور لوگوں کی رائےایک بڑے مدبر کی رائے اخبار بینی کے متعلق یہ ہے کہ کتب بینی سے اخبار بینی زیادہ سودمند ہے، اور اس کا نفع اس سے بدرجہا زیادہ ہے، کیوں کہ ایک کتاب کسی خاص بحث اور مضمون پر ہوا کرتی ہے۔ اور بر خلاف اس کے اخبار میں چھوٹے چھوٹے مضامین مختلف بحثوں پر ہوا کرتے ہیں، اور بجائے ایک بات کے ان میں متعدد سودمند باتیں ہوتی ہیں۔ جس چیز سے ہماری طبیعت کو مناسبت ہو، ہم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ علامہ سید جمال الدین افغانی المصری اخبار کے فوائد میں یہ لطیف شعر پڑھتے ہیں۔ لا سعادت لامۃ لیس لھا سائقالی الفضائل و لا زاجر عن الرذائل(یعنی جس قوم میں اچھی باتوں کی جانب ہدایت کرنے والا اور بری باتوں سے منع کرنے والا اخبار نہ ہو اسے نیک بختی اور سعادت نہیں مل سکتی۔) یہ شعر اس حکیم وقت کا ہے جس کی علمی لیاقت آج تمام اخباری دنیا میں مسلّم ہے۔ اس شعر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ موجودہ کے اعتبار سے اخبار سعادت کا باعث ہے۔ سعادت سے محروم ہے جو اخبار بینی سے ناواقف ہے۔ نیک بختی سے دور ہے وہ قوم جو اخبار سے مستفیض نہیں ہے۔ یورپ کو دیکھو آج دنیاوی سعادت میں کوئی قوم اس کے لگ بھگ نہیں ہے۔ تمام دنیا میں مسلّم ہو چکا ہے کہ جو شخص یا قوم دنیاوی سعادت کی خواہاں ہو، یورپ کی تقلید کرے۔ یہ کیوں؟ بس اسی لیے کہ اخبار بینی وہاں طبیعت ثانی ہوگئی ہے۔ جوانوں، بوڑھوں، بچوں، عورتوں، مردوں، معماروں، کتب فروشوں، مزدوروں، عطاروں، ڈاکٹروں، پادریوں، شاعروں، نجومیوں، تاجروں، مصوروں، زمینداروں، کسانوں، انجینئروں، نوکروں وغیرہ وغیرہ ہر ایک فرقہ، ہر ایک عہدہ، ہر ایک فن، ہر ایک علم، ہر ایک قسم کے لوگوں کے لیے علیحدہ علیحدہ اخبار شائع ہوتے ہیں، اور وہ اسے روزانہ دیکھ کر اپنی ضروری حاجتوں کو رفع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بیلمن ٹی ٹی اپنی ایک تصنیف میں تحریر کرتے ہیں کہ میں جس وقت ڈیونٹی کالج میں تحصیل علم میں سرگرم تھا، مجھے مضامین نویسی کا بہت شوق چڑھا تو مجھے اخباروں کے مطالعے سے بہت کچھ فائدہ ہوا، اور بہت باتوں کو میں نے اس سے سیکھا۔ جو علمی اور عقلی مضمون اخباروں میں ہوا کرتا تھا، اسے میں اول غور و فکر کے ساتھ پڑھتا اور رائے زنی کیا کرتا تھا، اور پھر اس کو اور طالب علموں کے سامنے پیش کیا کرتا اور بحث کیا کرتا تھا۔ اس طرح سے ایک علمی مذاق میری طبیعت میں پیدا ہو گیا، اور اس نے ایسا اضطراب پیدا کر دیا کہ میں اس فن اخبار نویسی کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اور پھر تو ایسے ایسے لاجواب مدلل علمی آرٹیکل اور مضامن لکھنے لگا جس کی قوم نے داد دی۔ یہ اخبار بینی ایسی عمدہ چیز ہے کہ اس سے زیادہ کوئی دلچسپ مشغلہ نہیں ہے۔ مسٹر گلیڈاسٹون سابق وزیر اعظم انگلستان اخبار کے متعلق لکھتا ہے کہ پبلک اخبار کی کیوں شاکی ہوتی ہے۔ یہ تمہارے ہی فائدے کی بات ہے، اس کا وجود تمہارے لیے غنیمت ہے۔ یہ ایک زبردست ہاتھ ہے، جس سے تمام دینی دنیوی باتوں کی تکمیل ہوتی ہے، اور اس کا فیض جاری ہر طرف پھیلتا ہے۔ اس سے بڑے بڑے کام نکلتے ہیں۔ اس سے بڑے بڑے فائدے انسان کو ہوتے ہیں۔ پرنس بسمارک فن اخبار نویسی میں بڑا مشاق تھا، اور اس کے رموز و نکات کا ایسا ماہر تھا جیسے کوئی بڑا مشاق، لائق وفائق اور تجربہ کار ایڈیٹر ہو، مجھے چوں کہ اس کام پر اس نے مامور کیا تھا۔ اس لئے وہ دن میں کئی بار بلا کر اخبار کے متعلق باتیں کیا کرتا تھا، اخبار کا وہ ایسا عاشق تھا کہ رات دن اسی دھن میں رہتا تھا۔ رات کو آدھی آدھی رات (کے وقت) دفعتاً چونک کر مجھے طلب کرتا تھا، اور جو مضمون اس کے ذہن میں اس وقت سماتا تھا لکھ کر حکم کرتا تھا کہ اسے فوراً صبح کو فلاں فلاں اخبار میں شائع کردیا جائے۔ غرضیکہ اخبار سے اسے بڑی دلچسپی تھی، اور سب سے عمدہ مشغلہ سمجھتا تھا۔ پیٹراعظم شاہ روس کی لائف میں لکھا ہے کہ وہ نہایت دلچسپی سے اخبار وں میں ایٹوریل مضامین لکھا کرتا تھا اور اخبار کو رعایا کے خیالات کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ اور اخباروں سے اس کو اتنا شغف تھا کہ بذات خود اس کے پروف کی صحت کیا کرتا تھا، اور وہ تمام پروف اس کی مشہور لائبریری میں موجود ہیں۔ فرانس کے مشہور مدبر نپولین کے حالات میں مؤرخ لکھتا ہے کہ نپولین کا قاعدہ تھا کہ جب وہ کوئی بڑا کام کرتا تھا تو پہلے اخباروں میں اس کے متعلق موافق اور تائیدی مضامین شائع کراتا تھا اور اس طور سے عام رایوں کو اپنے موافق کر لیتا تھا۔ ہندوستان میں جتنے نامور جنرل اور گورنر آئے ہیں، جب وہ پنشن لے کر ولایت کو واپس جاتے ہیں تو وہاں بھی اخبار نویسی کے پر لطف مشغلے میں باقی زندگی بسر کرتے ہیں۔ سرولیم میور سے ہندوستان کا کوئی تعلیم یافتہ ایسا ہے جو واقف نہیں؟ یہ علاوہ اس کے کہ ہندوستان میں عرصے تک گورنر رہ چکے ہیں بہت بڑے مصنف بھی ہیں ان کی تصانیف میں ’’لائف آف محمدؐ‘‘ ایک ممتاز کتاب ہے۔ جس میں آں حضرت پیغمبرؐ برحق روحی فداہ کی لائف لکھ کر اس پر نئی طرز سے نکتہ چینی کی گئی ہے۔ اور جو اس طریق اعتراض سے مختلف ہے جو عام مشنری اور پادری کیا کرتے ہیں۔ جس سے میور صاحب کی ایک ممتاز صفت معلوم ہوتی ہے۔ یہ فاضل شخص بھی اخبار کے نامہ نگار ہیں۔ اور ان کے اکثر مضامین اخباروں میں شائع ہوتے ہیں۔ مسٹر سر الفرڈلائل، سر لیبل گریفن، سر رچرڈ ٹیمپل، سر رچرڈ گارتھ وغیرہ تمام مضامین نگار ہیں۔ سر ولیم ہنٹر سابق ممبر کونسل گورنمنٹ ہند اخبار ٹائمز کے ایڈیٹر ہوئے، اور ان کے پرزور آرٹیکل نہایت وقعت کی نگاہ سے دیکھےجاتے تھے۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فن اخبار نویسی کیسا لاجواب اور دلچسپ فن ہے کہ ایسے فاضل اسے اختیار کرتے ہیں۔