فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں
فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں
موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں
ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا
ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں
ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی
ہم کو وہ دیدۂ نم بھولنے والا ہے کہیں
کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست
جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں
آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالبؔ
یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں