فیصلہ کوئی بلندی پہ پہنچ کر ہوگا
فیصلہ کوئی بلندی پہ پہنچ کر ہوگا
جب مرے سامنے ہر شہر کا منظر ہوگا
اور کچھ دیر اسے روند کے خوش ہو جاؤں
آنکھ کھلتے ہی یہ سورج مرے سر پر ہوگا
کشتیاں آج سے پہلے ہوئیں کتنی غرقاب
اس کا اندازہ سمندر میں اتر کر ہوگا
اک نجومی نے بتائی ہے بڑے کام کی بات
کل کا دن آج سے ہر حال میں بہتر ہوگا
کیوں نہ میں اپنے قدم سوچ سمجھ کر رکھوں
وہ تعاقب میں مرے ساتھ تو اکثر ہوگا
اس کے سائے میں چھپے بیٹھے ہیں کتنے افراد
اس کا اندازہ تو دیوار گرا کر ہوگا
توڑ ڈالے تھے در و بام سفر سے پہلے
منتظر میرے لیے پھر بھی مرا گھر ہوگا
گھٹنیوں چلنا ابھی آج ہی سیکھا ہے ظفرؔ
کل یہ بچہ بھی مرے قد کے برابر ہوگا