فیصل آباد تشددکا واقعہ کس طرح ایلیٹ کلاس کی بھیانک تصویر بے نقاب کررہا ہے؟
فیصل آباد میں میڈیکل کالج کی طالبہ خدیجہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ہمارے معاشرے کا انتہائی خوفناک اور بھیانک چہرہ ہے۔اگر حقیقت وہی کچھ ہے جو ویڈیو میں دکھائی گئی ہے تو معاشرتی و اخلاقی اقدار کی اس سے زیادہ ذلت اور رسوائی کیا ہوسکتی ہے؟
انسانیت سوز تشدد اور تذلیل:
میڈیا پر سامنے آنے والی تفصیلا ت کے مطابق لڑکی کی میڈیکل رپورٹ بتاتی ہے کہ چہرے اور آنکھوں پر سوزش اورزخم ہیں جبکہ بازو اورہاتھوں پر ناخن کےنشانات ہیں اور زبردستی سر کے بال اور بھنویں کاٹی گئیں۔ پھر اسے جوتے چاٹنے پر مجبور کیا گیا۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادتی بھی کی گئی ہے تاہم اس کے شواہد ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
کیا یہ سب کچھ روپے پیسے کے بل پر ہورہا ہے؟
اب تک کی اطلاعات کے مطابق شیخ دانش اور ان کا خاندان ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے اور بظاہر یہ خاندان اپنا سیاسی و معاشی اثر رسوخ رکھتا ہے۔ ان کے اپنی دولت پر گھمنڈ اور اثر ورسوخ یا آسان الفاظ میں بدمعاشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ ظالموں نے خدیجہ پر تشدد اور اس کی تذلیل کرکے ویڈیو ریکارڈ کی اور پھر، پولیس کے مطابق ،یہ ویڈیو بھی ملزمان یامجرموں نے خود ہی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہے۔ یعنی چوری اور سینہ زوری، جیسے کوئی خوف خدا ہی نہ رہا ہو۔ یا پھر انہیں اندازہ ہے کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا۔ اور بظاہر ہو بھی یہی رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے اور اس کا پریشر آنے کے باوجود مرکزی ملزم شیخ دانش محض پچاس ہزار روپے کے مچلکوں پر ضمانت حاصل کرچکا ہے۔
موجودہ واقعہ کچھ مختلف ہے، کس طرح؟
اس سے قبل ہمارے ہاں گھریلو ملزموں پر تشدد اور سفاکیت کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، اسی طرح شادی سے انکار پر ہونے والی لڑائیاں حتیٰ کے قتل تک کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن تشدد کا یہ واقعہ کئی انداز سے مختلف ہے۔
ایک طرف یہ واقعہ ہماری ایلیٹ کلاس سوسائٹی کی ایک بھیانک تصویر ہمیں دکھا رہا ہے ۔ پولیس رپورٹ کے مطابق بی ڈی ایس کی فائنل ایئر کی طالبہ خدیجہ شیخ دانش کی بیٹی عنا کی دوست تھی اور اکثر ان کے گھر جاتی تھی۔ دانش شیخ خدیجہ کی طرف مائل ہوا اور اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اسے شادی کی پیشکش کرے تاہم خدیجہ نے دانش شیخ کی تجویز کو مسترد کر دیا جس کے بعد عنا نے خدیجہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں جس کے بعد خدیجہ نے دانش اور اس کے خاندان سے تمام رابطہ منقطع کر دیا۔
یہ اس تشدد والے واقعہ سے پہلے کی تفصیل ہے جو پولیس رپورٹ سے ہم نے لی ہے۔ اس کے بعد وہ واقعہ ہوا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے اور جس نے ایک مرتبہ پھر ہم پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ظلم اور تشدد کا شکار ہونے والی خدیجہ کسی مظلوم اور غریب گھر سے تعلق نہیں رکھتی تھی، نہ ہی پیسے کا کوئی لالچ اس کے ذہن میں تھا۔ بظاہر یہ واقعہ دو ایلیٹ یا متمول گھرانوں کے درمیان ہوا ہے۔
میڈیا کیا نہیں بتارہا؟ کون سی تصویر چھپا رہا ہے؟
شومئی قسمت، سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا۔ سنسنی خیزی، ریٹنگ اور مسالے کا بخار چڑھا ہے۔ کسی کی عزت جاتی ہو یا آبرو پائمال ہوتی ہو، انہیں صرف ویڈیو وائرل ہونے اور اپنی ریٹنگ بہتر ہونے سے غرض ہے۔ حقیقت بتانا اور معاشرے کی رہنمائی کرنا اب شاید اس میڈیا کا مقصد ہی نہیں رہا۔
یقیناً خدیجہ مظلوم ہے اور اس پر ہونے والے تشدد، ظلم اور تذلیل کا کوئی جواز نہیں دیا جاسکتا جو کیا گیا لیکن سوال یہ ہے یہ واقعہ تشدد کی وجہ سے نمایاں ہوگیا ، اس کی ویڈیو وائرل ہوگئی لیکن ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جو بظاہر ہماری اشرافیہ اور سیکولر طبقہ کے گھروں میں رونما ہوتے ہیں، جن کی کوئی ویڈیو وائرل نہیں ہوتی۔ لیکن ہر واقعہ ہمارے لبرل طبقے کے دامن پر ایک بدنما داغ تو ضرور ہوتا ہے۔
اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ کسی مولوی صاحب کا سامنے آجاتا، کہیں کوئی مدرسہ یا دین دار شخص اس میں مرکزی کردار ہوتا تو پھر آپ دیکھتے کہ سیکولر میڈیا کس طرح اس کردار کر تعاقب کرتا، اس کے ماضی کی دھجیاں بکھیری جاتیں، اس کے گھر کے حالات، اس کے بچوں بچیوں سے متعلق تفصیلات اس انداز سے نمایاں کی جاتیں کہ الامان و الحفیظ۔
ہمیں کیسے سوچنا چاہیے؟
یہ واقعہ اور اس طرح کے دیگر واقعات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہماری معاشی حیثیت اور ہمارا سٹیٹس خواہ کچھ بھی ہو، ہماری بقا اور نجات اس بات میں پنہاں ہے کہ ہم اپنی بنیادی اقدار اور روایات کی طرف لوٹ جائیں۔ اپنی نسل نو کو عزت، شرافت، دین داری اور اخلاقیات کا درس دیں اورخود بھی ان سے وابستہ ہو کر اپنے بچوں کے سامنے ان کا عملی نمونہ پیش کریں۔ اپنے قول و فعل کے تضاد کو دور کریں اور اپنی نئی نسل کو اسلام اور پاکستان سے محبت اور اسکے عملی تقاضوں سے متعلق زندگی گزارنے کی تربیت دیں۔