کیا فیس بک اپنی اخلاقیات کو کاروبار پر قربان کررہی ہے؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیانے اگرچہ انسانوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کیا ہے اور اب رابطے تعلقات اور بزنس کی تشہیر جیسے کئی معاملات اس سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ لیکن اسی ٹیکنالوجی سے کئی طبقات انسانی کے لیے پریشانی بڑھ گئی ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا پر بمشکل ہی کوئی قدغن لگائی جاسکتی ہے لہٰذا بہت سے مافیاز اور گروہ اس کے ذریعے سے نفرت انگیز مواد پھیلانے میں سرگرم ہیں جس سے کمزور طبقات یا اقلیتوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ سوشل میڈیا کا مکمل کنٹرول دنیا کی بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے پاس ہے جو اسے اپنے مقاصد کے لیے استعما ل کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہم وہ ٹریفک ہے جو ان کے بنائے پلیٹ فارم سے گزرتی ہے ، اس ٹریفک کے ذریعے کیا نفرت پھیلائی جارہی ہے اور کن طبقات کو نشانہ بنایا جارہا ہے، انہیں عملاً اس سے کوئی غرض نہیں۔اگرچہ ان کمپنیوں کے پاس ان اثرات کا ڈیٹا بھی ہوتا ہے جو ان کے ذریعے سے یا ان کی وجہ سے کسی معاشرے یا طبقے پر مرتب ہورہے ہوتے ہیں لیکن یہ اس طرح کی رپورٹس کی تشہیر بھی اپنے مقاصد کے تحت ہی کرتی ہیں۔
حال ہی میں حالیہ میٹا ورس اور سابقہ فیس بک کے ایک سابق ملازم فرانسس ہوگن اور انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں نے فیس بک سے بھارت میں اس کے اثرات کے بارے میں ایک رپورٹ کو پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے کمپنی نے کافی عرصہ سے روک رکھا ہے۔ انہوں نے فیس بک پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اس رپورٹ کو جان بوجھ کر چھپایا جارہا ہے کیونکہ فیس بک اپنی بہت بڑی مارکیٹ اور اس سے ہونے والی اپنی آمدن کو نظر انداز نہیں کرسکتی لہٰذا اپنے بزنس کی خاطر کمپنی ہندوتوا کے ایجنڈے کی خاموش حمایت کررہی ہے جسے فیس بک کے ذریعے سے پورے بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلایا جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتے دہلی میں انسانی حقوق کی 20 سے زیادہ تنظیموں نے فیس بک سے ان نتائج کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس موقع پر دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان نے کہا کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر نفرت کی مسلسل بھرمار ہے جس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کو عملی طور پر بے بس اور بے آواز بنا دیا گیا ہے۔ ظفر الاسلام نے مزید بتایا کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی اقلیتیں بھی فیس بک کے ذریعے سے نشانہ بنائی جارہی ہیں اور ان سے غیر انسانی اور امتیازی سلوک بڑھانے میں فیس بک کا کردار ہے۔
میٹا یا فیس بک نے 2020 میں قانونی فرم فولے ہوگ کو ہندوستان میں اپنے معاشرتی اثرات کا آزادانہ جائزہ لینے کاٹاسک دیا تھا۔ ہندوستان فیس بک کی بڑی مارکیٹ ہے جہاں اس کے صارفین کی تعداد 340 ملین سے بھی متجاوز ہے۔ یہ رپورٹ گزشتہ سال نومبر میں تیار ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد سے فیس بک اس رپورٹ کو شائع کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
بھارت میں سوشل میڈیا کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی کردار کشی کرنے کےلیے بھرپور طورپر استعمال کیا جارہاہے جس پر اس سے پہلے بھی کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ کئی تنظیموں نے براہ راست فیس بک کے مالک زکربرگ کو خطوط بھی ارسال کیے ہیں جن میں ان سے اپنی کمپنی کے اس غیر اخلاقی عمل میں حصہ بننے سے روکنے کی اپیل اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کی پاس داری کا مطالبہ کیا ہے، لیکن عملاً فیس بک کی طرف سے ان خطوط اور اس طرح کی اپیلوں کے جواب میں خاموشی ہی اختیار کی گئی ہے اور اس خاموشی کی وجہ بڑی واضح ہے۔ ایک بڑی مارکیٹ اور بڑا کاروبار۔ اور فیس بک جیسے کاروباری ادارے اپنی انسان دوستی اور اخلاقیات کو اپنے کاروبار پر بآسانی قربان کرسکتے ہیں۔