فاصلے
اب وہ آنکھوں کے شگوفے ہیں نہ چہروں کے گلاب
ایک منحوس اداسی ہے کہ مٹتی ہی نہیں
اتنی بے رنگ ہیں اب رنگ کی خوگر آنکھیں
جیسے اس شہر تمنا سے کوئی ربط نہ تھا
جیسے دیکھا تھا سراب
دیکھ لیتا ہوں اگر کوئی شناسا چہرہ
ایک لمحے کو اسے دیکھ کے رک جاتا ہوں
سوچتا ہوں کہ بڑھوں اور کوئی بات کروں
اس سے تجدید ملاقات کروں
لیکن اس شخص کی مانوس گریزاں نظریں
مجھ کو احساس دلاتی ہیں کہ اب اس کے لیے
میں بھی انجان ہوں، اک عام تماشائی ہوں
راہ چلتے ہوئے ان دوسرے لوگوں کی طرح