اردگان کا دورہ سعودی عرب: کیا رنجشیں مٹ پائیں گی؟
گزشتہ نصف صدی میں جہاں دو عظیم جنگیں لڑنے کے بعد یورپی اور مغربی طاقتیں ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہوتی چلی گئیں ، وہیں بد قسمتی سے چالیس برس سے زائد ہو چلے ہیں کہ پوری اسلامی دنیا ایک سرد جنگ کی سی کیفیت میں ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی مخاصمت کو اس کی بنیاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دونوں ممالک اپنے اپنے مطلب کےاسلام کی تعبیر کو لے کر، اپنے مالی و عسکری وسائل کے ساتھ، دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اپنے اپنے مفادات کے لیے باہم دست وگریباں ہیں۔ چاہے وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک شام، عراق، یمن، لبنان ہوں یا پھر افریقہ کے لبیا، سوڈان، مراکش، مصر وغیرہ۔ ہر جگہ ان دو ممالک کے متصادم مفادات نظر آتے ہیں۔ ایک اگر حکومت کی پشت پناہی کرتا ہے تو دوسرا حکومت کے خلاف باغیوں کی۔
لیکن اسلامی دنیا میں ان دو ممالک سے ہٹ کر ایک اور طاقت بھی موجود ہے جو اپنی الگ ترجیحات اور مفادات رکھتی ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی نہ تو سعودی عرب کے دباؤ میں ہوتی ہے اور نہ ہی ایران کے۔ اسلامی دنیا میں کچھ مثبت اقدامات اور بیشتر جگہ پسند کی جانے والی اخوان المسلمون اور حماس جیسی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت نے اس کو اور اس کے موجودہ صدر طیب رجب اردگان کو ہر دل عزیز بھی بنا رکھا ہے۔ لیکن بہرحال اس طاقت کے اپنے مفادات ہیں جو کہ وقتاً فوقتاً نظر بھی آتے رہتے ہیں۔ ابھی آپ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد طیب اردگان صاحب کا رویہ ہی دیکھ لیں۔ کابل ہوائی اڈے والے مسئلے پر ان کا شروع کا رویہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ طالبان کے حوالے سے خاصے سخت ہیں۔ ایک آدھ بیان میں تو انہوں نے طالبان کو قابض طاقت بھی کہا۔ لیکن جب چیزیں ترکی کے مفاد کے مطابق ہوئیں تو سب ٹھیک ہو گیا۔
خیر!ابھی ابھی تین میں سے دو طاقتوں کے مابین اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جب گزشتہ ہفتے طیب اردگان اور سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان کے مابین اہم ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات اس برف کو پگھلانے میں اہم سنگ میل ثابت ہوگی جو کہ ترکی اور جزیرہ نما عرب کے تمام ممالک سوائے قطر کے مابین جمتی جا رہی تھی۔ اکتوبر 2018 میں تو امریکی نژاد سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل نے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک صحافی کی وجہ سے دو ممالک کے تعلقات سرد پڑ جائیں؟ تو جناب میں بتاتا ہوں آپ کو۔دراصل خشوگی امریکہ کے اخبار واشنگٹن پوسٹ کے صحافی تھے جو کہ سعودی حکمران خاندان آل سعود میں خاصی سلام دعا رکھتے تھے۔ پچھلی دو دہائیوں میں ہونے والی بہت سی اہم تاریخی پیش رفت کے خشوگی براہ راست گواہ تھے۔ ترکی کے سعودی کونسل خانے میں ان کے قتل نے براہ راست انقرہ سے وائٹ ہاؤس تک نقارے بجائے تھے۔ ترک انٹیلی جنس کی جانب سے تیار کردہ ان کے قتل کی ریکارڈنگ براہ راست اردگان صاحب نے سنی تھی اور پھر ٹکڑوں میں یہ ریکارڈنگ جاری کی تھی۔ آج بھی اس قتل کی انگلیاں براہ راست محمد بن سلمان کی جانب اٹھائی جاتی ہیں۔ اس قتل سے متعلق کیس بھی ترکی میں چل رہا تھا جو کہ اس ملاقات کے ٹوکن کے طور پر ریاض یعنی سعودی عرب منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خشوگی صاحب کی منگیتر خدیجہ سخت نالاں ہیں۔
لیکن کیا کریں عالمی شطرنج پر مفادات ہوتے ہیں اخلاقیات یا جذبات نہیں۔اردگان صاحب نے براہ راست سعودی عرب ممالک جانے سے پہلے اس کے اتحادیوں متحدہ عرب عمارات اور مصر سے بھی تعلقات بحال کیے ہیں۔ مصر سے تو ان کی اصولی مخاصمت تھی۔ 2011 میں عرب بہار کے دوران کچھ اگر اچھا ہوا تھا تو وہ یہ تھا کہ مصر میں مرحوم مرسی صاحب کی قیادت میں پہلی بار جمہوریت قائم ہوئی تھی۔ اخوان المسلمون اپنی برسوں کی تگ و دو کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن سال بعد ہی ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور جابر آمر جرنل سیسی سعودی عرب اور اسرائیل کی حمایت سے مسلط ہو گئے۔ آج بھی یہی فوجی حکمران مصر پر مسلط ہیں۔
اب اخوان المسلمون اور جرنل سیسی سے متعلق سعودی عرب اور اس کے اتحادی تو ایک طرف تھے لیکن ترکی بالکل ان کے الٹ کھڑا تھا۔ اردگان صاحب کھل کر اخوان المسلمون کی حمایت کرتے تھے جس کو سعودی اور سیسی دونوں دہشت گرد کہتے ہیں۔ مصر سے تعلق بحال کرنے کے لیے اردگان صاحب کو یو ٹرن لینا پڑا ہے۔ گو کہ ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ انہوں نے اخوان المسلمون سے اعلان برات کیا ہے یا نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اردگان صاحب وکٹ کے دونوں اطراف کھیل رہے ہوں۔ جیسے وہ یوکرائن جنگ کے دوران روس اور امریکہ کے مابین اب تک خوب صورتی سے کھیلے ہیں۔
اب یہ دیکھ لیتے ہیں کہ آخر اردگان صاحب کو برسوں سے جاری اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کیوں کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک ممکنہ وجہ تو ترکی کی مشکل معاشی صورتحال ہو سکتی ہے۔ ترکی میں اس وقت مہنگائی کی شرح ساٹھ فیصد سے زائد ہے۔ دوسری طرف ترکی کا لیرا بھی اپنی قدر کھو رہا ہے۔ متعدد اخبارات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ اردگان کے یو ٹرن کی وجہ یہ معاشی مشکلات ہیں۔ سعودی عرب سے تعلقات بحال ہونے پر اس ضمن میں کچھ نہ کچھ سہولت ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب نے ترکی سے درآمدات پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اگر اس ملاقات کے بعد یہ پابندی ہی ہٹ جائے تو کچھ نہ کچھ تو زر مبادلہ آئے گا ہی ناں۔ اوپر سے سعودی عرب سے تعلقات بحال ہونے کا مطلب صرف سعودی عرب نہیں ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بحرین، کویت، متحدہ عرب عمارات اور مصر سے بھی تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ان سب کی خارجہ پالیسی بہت حد تک سعودی عرب کے ماتحت ہی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اسلامی ممالک سے تعلقات کے ضمن میں۔
اگلے سال ترکی میں صدارتی انتخابات ہیں۔ اردگان صاحب کو ہر حال میں ان سے پہلے ترکی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنا ہے۔ تو ممکنہ طور پر یہ اس کی کوششوں میں سے ہی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت سعودی عرب امریکہ سے کچھ کچھ رنجیدہ ہے۔ ایران ڈیل کو بحال کرنے کی طرف اقدامات سے۔ اسے خوف ہے کہ ایران پر سے پابندیاں ہٹیں تو اس کے عسکری گروہ مزید ناک میں دم کردیں گے۔ ممکنہ طور پر اردگان صاحب نے اسے ایک موقع جانا ہو اور اپنے ہتھیار جن میں ڈرون سر فہرست ہیں، فروخت کرنے سعودی عرب پہنچ گئے ہوں۔ ساتھ میں سعودی عرب کو یقین دلائیں کہ فکر نہیں کرنی، ایران کو میں سنبھال لوں گا۔
وجہ کچھ بھی ہو۔ اس وقت اسلامی دنیا کی دو بڑی طاقتوں کی الائنمنٹ بدلی ہے۔ اثرات لازمی طور پر مرتب ہوں گے۔ ظاہر ہے اس کے لیے کچھ نہ کچھ تو انتظار کرنا ہوگا ہی۔ آئیے پھر کرتے ہیں انتظار۔ بتائیے اس کے سوا کچھ چارہ ہے؟