ایپی جنیٹکس: خون کے قطروں میں ہے انسانی شخصیت کا راز
خون کے چند قطروں کی مدد سے مختلف بیماریوں مثلاََ شوگر اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کا معلوم ہوجانا تو سب کی سمجھ میں آتا ہے لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ خون کے ان چند قطروں کی مدد سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے، آپ کی معاشی حالت کیسی ہے، آپ کا بچپن کیسا گزرا اور مستقبل میں آپ کن ممکنہ بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ڈی این اے میں کیا کچھ ہے؟
ہم یہ بات تو بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارےڈی این اے میں ہمارےجسم سے متعلق تمام معلومات محفوظ ہوتی ہیں جن میں آنکھوں کی رنگت، جلد کی رنگت، بالوں کی رنگت، کانوں اور ہونٹوں کی ساخت وغیرہ کے ساتھ ساتھ پورے جسم کے افعال اور کارکردگی کے بارے میں بھی ہدایات موجود ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرتی اور معاشی حالات، بچپن کے تجربات اور جذباتی کیفیات جیسے خارجی اور نفسیاتی معاملات کا ڈی این اے کی معلومات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ان میں سے اکثر معاملات ہمارے بیرونی ماحول کے زیر اثر پیش آتے ہیں۔ اس لیے عمومی تاثر یہی بنتا ہے کہ ڈی این اے میں ان بیرونی معاملات سے متعلقہ معلومات کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اگر بات صرف ڈی این اے یعنی ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ نامی ترشوں کی ہو تو پھر تو ہمارا عمومی تاثر واقعی درست قرار پاتا ہے لیکن اب بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ ڈی این اے کی چکر دار ساختوں میں کچھ ایسی ساختیں بھی پائی جاتی ہیں جو ہمارے ماحول کے اثرات قبول کرتی ہیں اوران اثرات کے نتیجے میں، ان ساختوں پر کچھ ایسے نشانات پیدا ہوجاتے ہیں جن کی مدد سے کسی بھی فرد کے معاشی و معاشرتی حالات اور جذباتی کیفیات کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈی این اے میں انسانی جذبات کی کھوج لگانا ممکن۔۔۔لیکن کیسے؟
یہ سب کچھ ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہونے جا رہا ہے جو ڈی این اے میں موجود انتہائی ذاتی معلومات کو بھی پڑھ سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہماری صحت، عادات، دماغی کیفیات اور معاشی و معاشرتی حالات کے بارے میں بتا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کئی سال پرانے واقعات کی تفصیلات مثلاََ ہمارے بچپن کے مختلف تجربات اور کیفیات کو بھی ظاہر کر سکتی ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا ہے کیونکہ ہم جن حالات میں زندگی گزارتے ہیں اور جن تجربات سے گزرتے ہیں، وہ سب ہمارے ڈی این اے پر انتہائی خفیف نشانات چھوڑ جاتے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ان خفیف نشانات کی وضاحت کی جا سکے۔ اس ٹیکنالوجی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی مدد سے ڈاکٹر حضرات کو مختلف اقسام کی بیماریوں کی نشاندہی کرنے میں مدد ملے گی۔ نیز اس کی مدد سے پولیس کے لئے بھی یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ جائے واردات سے مشتبہ شخص کے محض خون کے چند قطرے ملنے کی صورت میں اس کا جامع شخصی خاکہ تیار کر سکیں۔
لیکن اس ٹیکنالوجی کا منفی پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی بلیک میلر اس ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی شخص یہ پسند نہیں کرے گا کہ کوئی دوسرا شخص اس کی زندگی کے ذاتی واقعات کو پڑھ سکے، خاص طور پر کوئی ایسا شخص جس سےآپ اپنی معلومات پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں۔ اس کا خطرہ یوں بھی موجود ہے کہ آپ کسی بیماری کی تشخیص کے لئے لیبارٹری میں خون کا نمونہ دیتے ہیں یا کسی کوڑا دان میں اپنےخون سے تر کوئی کپڑا وغیرہ پھینکتے ہیں تو کوئی بھی شخص اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔
کیا خون سے انسانی جذبات اور عمر کا پتا لگانا ممکن ہے؟
اگرچہ خون کے قطروں کے ذریعے، ڈی این اے کی سلسلہ بندی دیکھتے ہوئے، کسی شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی پہلے ہی موجود ہے جس میں آنکھوں اور بالوں کی رنگت سمیت کچھ چیزیں معلوم کی جا سکتی ہیں تاہم جینز میں یہ بات نہیں لکھی ہوتی کہ ہماری شخصیت کیسی ہے۔ اہم بات یہ معلوم کرنا ہے کہ ہمارا طرز زندگی کیسا ہے، ہم اپنی زندگی میں کن تجربات اور کیفیات سے گزرے ہیں اور ہم کس قسم کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ عام طور پر یہی سوچا جاتا ہے کہ یہ سب باتیں ڈی این اے کی مدد سے معلوم نہیں کی جا سکتیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ، ان سب چیزوں کے نشانات، ہمارے خلیات میں موجود ڈی این اے کے ساتھ منسلک ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نشانات ڈی این اے کے کن حصوں پر ثبت ہوتے ہیں اور انھیں کس طرح پڑھا جا سکتا ہے۔
ان نشانات کا مقام ڈی این اے کی ایک اساسی بنیاد سائٹوسین ہے جہاں ایک میتھائل گروپ اس سے جڑتاہے۔ میتھائل گروپ دراصل کیمیائی بانڈ ہے جو جینیاتی ہدایات کے عمل میں دخل نہیں دیتا بلکہ یہ قریبی جینز کو مختلف معاملات میں شامل ہونے سے روکنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ ڈی این اے انسانی جسم تیار کرنے کی ترکیب والی ایک کتاب ہے تو یہ میتھائل گروپ ایسے لیسدار اور چپکواں مادے کی طرح ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ” ایسا مت کرو“۔ ان کی بڑی تعداد ڈی این اے میں اس وقت شامل ہوتی ہے جب ہم ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتے ہیں۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب نئے خلیات بن رہے ہوتے ہیں اور اس وقت میتھائل گروپ غیر ضروری جینز کو بند کرنے میں مدد دیتے ہیں مثلاََ یہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جگر کا خلیہ عصبی خلیے کے طور پر ظاہر نہ ہوسکے۔
ڈی این اے میں میتھائل گروپ کی یہ اثراندازی ہماری پوری زندگی میں جاری رہتی ہے جس کے نتیجے میں ڈی این اے میں مختلف مقامات پر مختلف نشانات بنتے رہتے ہیں۔ جینوم میں ایسی لاکھوں جگہیں ہوتی ہیں جہاں میتھائل گروپ اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ان کی پیدا کردہ تبدیلیوں کی وجہ سے کسی بھی دو افراد کے جینیاتی نمونے یکساں نہیں ہوتے۔ چونکہ یہ تغیرات ہمارے رہن سہن کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے ان کی مدد سے ہماری زندگی کی کہانی کسی حد تک ظاہر ہو سکتی ہے۔ میتھائل گروپ کی اثر اندازی کے عمل کو ”میتھائلیشن“ (Methylation) کہتے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے جینوم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے عمل کو مجموعی طور پر ” ایپی جنیٹکس“ (Epigenetics) کا نام دیا گیا ہے۔
گویا ایپی جینوم ہماری زندگی کےاہم واقعات کی ایک تصویر ہوتی ہے۔ ابھی یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ پختہ ہو جانے کے بعد، یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں انسانی شخصیت کے بہت سے نئے پہلوئوں سے پردہ اٹھا سکے گی۔