عظیم مسلمان سائنس دانوں کے یورپی نام
سائنس کا طالبعلم جب سائنس کی تاریخ پر نظر دوڑاتا ہے تو اسے یونانی مفکرین کے بعد اچانک یورپی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کا آغاز دکھائی دیتا ہے۔ جدید سائنس چونکہ ہم تک مغرب کی وساطت سے پہنچی ہے، اس لیے اس کی تاریخ کے لیے بھی ہمیں مغربی ماخذوں پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔تاریخ سائنس کا طالبعلم ان ماخذوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ ان دو ادوار کے درمیان ڈیڑھ ہزار برس میں ہونے والی سائنسی ترقی کہاں گئی اور یہ کہ یونانی علوم آخر کس طرح عصر جدید میں داخل ہوئے؟
ایجادات کی تاریخ میں ارشمیدس کی چرخی (1260 ق م ) کے بعد گٹن برگ کا چھاپہ خانہ (1450ء) نظر آتا ہے۔ درمیانی ڈیڑھ ہزار برس کا ارتقاء غائب ہے اور یہی وہ دور ہے جسے "اسلامی سائنس" کا نام دینا متعصب یورپی مورخین کو پسند نہیں۔
مسلمان سائنسدانوں کے نظریات اور ایجادات کے بغیر اہل یورپ شاید سائنس کی بنیاد ہی نہ رکھ سکتے لیکن ان کی تنگ نظری اور تعصب یہ گوارا نہ کرتا تھا کہ نوجوان طالبعلموں کے ذہن میں مسلمانوں کی عظمت اجاگر ہو۔ اس لیے انھوں نے مسلمان سائنسدانوں کے ناموں کو اس طرح بگاڑ کر نصاب میں شامل کیا کہ وہ یورپی نام محسوس ہونے لگے۔ نمونے کے طور پر ہم یہاں چند مثالیں پیش کررہے ہیں کہ مسلمان سائنسدانوں کے ناموں کو کس طرح بگاڑ کر پیش کیا گیا۔ نیز اس مضمون کا مقصد آج کے نوجوانوں کو مسلمان ماہرین کے عظیم کارناموں سے روشناس کرانا بھی ہے۔
ابن الہیثم (الہیزن)
ابو علی محمد ابن الحسن ابن الہیثم (354ھ تا 430ھ )یورپ میں" الہیزن" (ALHAZEN) کے نام سے علم المناظر کا امام تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے شیشوں، آئینوں اور پانی سے گزرتے وقت، روشنی کی کرنوں کے انعطاف پر تجربات کئے۔ "کتاب المناظر" جیسی عظیم کتاب کا مصنف ابن الہیثم ، فلسفے کے ساتھ ساتھ ہئیت(فلکیات)، ریاضی اور طب کا بھی ماہر تھا۔
جابر بن حیان (گیبر)
کوفے کے ایک عطار کا بیٹا اور حضرت امام جعفر صادق (رحمتہ اللہ علیہ) کے زیر سایہ تعلیم پانے والا جابر بن حیان (721ء تا 806ء ) یورپ میں" گیبر" (GEBER) کے نام سے بابائے کیمیا (Father of Chemistry) مشہور ہوا۔ پندرھویں صدی تک پورے یورپ میں جابر کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی تھیں اور اٹھارھویں صدی تک یورپ کے کیمیا دان جابر کے وضع کردہ اصولوں پر ہی کام کرتے رہے۔
موسیٰ الخوارزمی (الگورزم)
اٹھارھویں صدی میں یوورپ کی یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر پڑھائی جانے والی کتاب "حساب، الجبروالمقابلہ" کا مصنف محمد بن موسیٰ (780ء تا 850ء ) خوارزم میں پیدا ہونے کی وجہ سے الخوارزمی کہلایا اور یورپ میں "الگورزم " (ALGORISM) کے نام سے مشہور ہوا۔ الخوارزمی صرف اسلامی دنیا کا ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی ریاضی اورہئیت کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔کیپلر اور کوپرنیکس نے الخوارزمی ہی کی معلومات پر اپنی تحقیق اور تجربات کو آگے بڑھایا۔
الطبری (الٹیبر)
ابو الحسن علی ابن الطبری (822ء تا 899ء) یورپ میں" الٹیبر "(ALTABER) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی شہرہ آفاق تصنیف "فردوس الحکمت" اسلامی طب پر سب سے قدیم اور مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ وہ دنیائے طب کے عظیم استاد "الرازی" کا استاد تھا۔ طب کے علاوہ الطبری کو فلسفہ، فلکیات، ریاضی، کتابت اور سیاست سے بھی گہری دلچسپی تھی۔
الفرغانی (الفریگانوس)
ابو العباس احمد بن محمد بن الفرغانی (822ء تا 903ء ) یورپ کے فلکیاتی اور انجینئرنگ حلقے میں "الفریگانوس" (ALFREGANUS) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مایہ ناز انجینئر اور فلکیات دان نے الفسطاس میں دریا کے پانی کی گہرائی ناپنے کے لیے ایک ایسا حیرت انگیز آلہ ایجاد کیا جو دریائے نیل کی مناسبت سے آج تک "نائیلو میٹر" کہلاتا ہے۔ الفرغانی نے زمین کا قطر معلوم کرنے کے لیے بھی کام کیا اور آج کے مقابلے میں صرف 0.6 فیصد غلطی کا مرتکب ہوا۔
ابن الزکریا (رہیزز)
ابوبکر محمد ابن الزکریا الرازی(864ء تا 925ء) یورپ میں"رہیزز "(RHAZES) کے نام سے مشہور کیا گیا۔ وہ دنیا کے سب سے پہلے طبی انسائیکلو پیڈیا "الحاوی" کا مصنف اور نویں صدی عیسوی میں دنیا کا سب سے بڑا طبیب تھا۔ اس کی تصنیف "الحاوی" اٹھارھویں صدی عیسوی تکفرانس اور انگلستان کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ پیرس کی میڈیکل یونیورسٹی میں اس کی تصویر آج بھی آویزاں ہے۔
الزہراوی (ابُل کیسس)
ابولقاسم بن ابن العباس الزہراوی (936ء تا 1004ء ) کو یورپ میں "ابُل کیسس" (ABUL CASIS) کہا جاتا ہے۔ وہ دنیا کا پہلا سرجن ہے جس نے انسانی اعضاء کی تحقیق کے لیے "پوسٹ مارٹم" کی ضرورت پر زور دیا۔ سرجری کے موضوع پر اس کی کتاب "التصریف" وینس، آکسفورڈ، بیسل اور مونٹ پلئیر کی طبی درس گاہوں میں سترھویں صدی تک جراحی کے نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔
ابن سینا (ایوی سینا)
ابن سینا (980ء تا 1037ء ) یورپ میں "ایوی سینا" () کے نام مشہور ہوا۔ اس کی شہرہ آفاق تصنیف "القانون فی الطب" اٹھارھویں صدی تکیورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔اس نے صرف یورپ کے طبیبوں کو ہی نہیں بلکہ دیکارت جیسے فلسفیوں کو بھی متاثر کیا۔ تھرما میٹر کی ایجاد کا سہرا بھی ابن سینا کے سر ہی ہے۔
ابن باجہ (ایویم پیس)
ابوبکر محمد ابن یحییٰ ابن باجہ (1080ء تا 1138ء ) یورپ میں "ایویم پیس" (AVEMPACE) کے نام سے مشہور ہوا۔ افلاطون کے بعد، یہ پہلا ایسا اسلامی مفکر ہے جو 20 برس کی عمر میں "تدبیر المتواحد" جیسی عظیم "یوٹوپیا" تصنیف کر کے فلسفیانہ افکار پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ گیا۔
ابن رشد (اویروز)
ابوالولید محمد ابن احمد ابن رشد (1126ء تا 1198ء) کو یورپ میں" اویروز" (AVERROES) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت ممتاز ماہر فلکیات، بے مثال طبیب اور ارسطو کے نظریات کا قابل ترین شارح فلسفی تھا۔ ابن رشد کی "الکلیات فی الطب" دنیا کی پہلی کتاب ہے جس میں چیچک کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔
العباس المجوسی (میجوز)
علی بن العباس المجوسی یورپی تذکروں میں" میجوز" (MAJUES) کہلاتا ہے۔ طب میں اس کی شہرہ آفاق کتاب "الملکی"نظری اور عملی ،دونوں پہلوئوں سے بہت مشہور ہوئی۔ ابن العباس کے آبائو اجداد زرتشتی تھے اور مجوسی کہلاتے تھے۔ انہی کی نسبت سے وہ بھی مجوسی کہلایا لیکن اصل میں وہ خود ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔
ابن اسحاق (یوہنٹیس)
حنین بن اسحاق کو یورپ میں" یوہنٹیس "(JOHANATES) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عبداللہ المامون عباس نے علوم و فنون کی ترویج کے لیے "بیت الحکمت" کے نام سے تالیف اور ترجمے کا مشہور ادارہ قائم کیاتھا، ابن اسحاق اس کا سربراہ مقرر ہوا تھا۔ چونکہ وہ عربی اور یونانی زبانوں پر عبور رکھنے والا بہت بڑا طبیب تھا، اس لیے طب یونانی پر جتنی کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، وہ یا تو ابن اسحاق نے خود ترجمہ کیں یا اس کی نگرانی میں ترجمہ کی گئیں۔ وہ شروع میں عیسائی تھا لیکن آخری عمر میں مسلمان ہو گیا تھا۔
حقیقت یہی ہے کہ نویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسوی تک مسلمان سائنسدانوں نے فلکیات، کیمیا، طب اور جراحی کو غیر معمولی ترقی دی۔ آگے چل کر ان علوم نے باقاعدہ سائنس کی حیثیت اختیار کر لی لیکن افسوس کہ "قرطبہ" کی تسخیر کے بعد، مسیحی سورماؤں نے مسلمان علماء کی تصانیف پر اس طرح قبضہ کیا کہ ان کی ہزاروں کتابیں ابھی تک میڈرڈ، پیرس، لندن، واشنگٹن اور روم کے عجائب خانوں میں محفوظ ہیں۔ انھوں نے خود تو ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا لیکن کسی مسلمان عالم کو انھیں دیکھنے یا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ اسی صورت حال پر محترم علامہ اقبال نے کہا تھا کہ :
وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
انہیں دیکھیں جو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سہ پارہ
اسلامی ثقافت نے سائنس کا بیش بہا تحفہ دے کر، عصر جدید پر ایسا احسان کیا کہ جس کے بوجھ تلے وہ ہمیشہ دبا رہے گا۔ گویا یورپ کی سائنسی ترقی کی بنیادوں میں مسلمان ماہرین اور سائنسدانوں کا خون پسینہ شامل ہے۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تونے ؟
وہ کیا گردوں تھا، جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
مسلمان سائنس دانوں کے کارناموں پر انجینیئر الطاف حسین اعوان کا ایک مفید لیکچر ملاحظہ کیجیے: