اپنا کپ خالی کی جیے: ذہن کا کپ خالی ہوگا تب ہی سیکھیں گے
اکیسویں صدی کو انفارمیشن ایج کہا جاتا ہے، یہاں ہر طرف معلومات کی بمباری ہورہی ہے۔ ورقی میڈیا ہو کہ برقی میڈیا تمام ذرائع سے ہمارے ہمہ وقت رابطے میں رہنے کی وجہ سے ہمارا دماغ ہر وقت معلومات کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے۔ معلومات کے اس بحر بے کراں میں صحیح اور غلط معلومات یوں شیروشکر ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔۔۔ غلط کیا ہے اور درست کیا ۔ بعض اوقات ہم غلط معلومات کی بنیاد پر ایک اپنے ذہن میں نظریہ پال لیتے ہیں اور جب حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے تو ہمارے لئے اسے قبول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اکثر ان مواقع پر ہمارا رد عمل بہت شدید اور تلخ ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے، جب ہم بہت چھوٹے تھے تو ہماری کلاس کے انگریزی کے استاد رانگ (Wrong) اور نو ( Know) کو ورانگ اور کنو پڑھایا کرتے تھے۔ جب ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ دراصل دونوں الفاظ کا پہلا حرف سائلینٹ ہے۔ ایک بار میں نے اپنے استاد محترم سے پوچھا کہ وہ پورا سال ہمیں غلط الفاظ کیوں پڑھاتے رہے تو انہوں نے بتایا کہ تب سائلینٹ حروف کا تصور سمجھنے کے لئے ہمارا دماغ بہت چھوٹے تھے اگر صحیح لفظ پڑھایا جاتا تو ہم ہجے کرتے ہوئے "ڈبلیو" اور" کے" کو یاد رکھنے میں دقت محسوس کرتے۔ ہو سکتا ہے ماہرین تعلیم ہمارے استاد محترم سے اس طریقہ کار کو اپنانے پر اختلاف رکھیں لیکن ہماری حد تک یہ طریقہ بہت کارگر رہا تھا۔
یہ تو محض ایک مثال تھی اگر غور کیا جائے تو ہم میں سے ہر کسی نے سکول لائف میں ہر سال پچھلے سال کے پڑھائے گئے تصورات کو رد ہوتے اور نئے تصورات کو نمودار ہوتے دیکھا ہوگا۔ مثلاً ریاضی کو ہی لے لیجئے۔۔۔ پہلے پہل ہماری گنتی کی حدود ایک سے شروع ہوتی تھیں پھر ہمیں بتایا گیا کہ ایک سے پہلے صفر بھی ہوتی ہے، ہم نے مان لیا۔۔۔ پھر بتایا گیا کہ صفر سے پہلے منفی اعداد بھی ہوتے ہیں۔۔۔ ہم نے یہ بھی تسلیم کرلیا ۔۔۔ مزید آگے چل کر اعداد کے اس قبیلے میں دو مزید خاندان ناطق اور غیر ناطق اعداد کے بھی شامل کر دیئے گئے۔ ہم کچھ اور بڑے ہوئے تو اعداد کے ایک نئے قبیلے سے ہمارا تعارف کروایا گیا، جسے غیر حقیقی اعداد کا نام دیا گیا۔۔۔ ہم نے یہ بھی کھلے دل سے قبول کر لیا۔۔۔ کبھی اس بات پر اصرار یا بحث و تکرار نہیں کی کہ پچھلے سال تو ہمیں یہ پڑھایا گیا تھا اور آج ہمیں یہ پڑھایا جا رہا ہے۔۔۔ ایسے کیسے ؟
کیا کبھی غور کیا آپ نے۔۔۔ کہ ہم سکول کے دنوں میں ہر نئی معلومات کو اتنی آسانی سے کیسے قبول کر لیا کرتے تھے اور حقیقی دنیا میں نئے خیالات اور تصورات کو قبول کرنے میں اس قدر کیوں تردد کرتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے ایک چینی ہدایت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہوسکتا ہے کئی قارئین نے اس سے قبل یہ کہانی سن رکھی ہو لیکن زیر نظر مسئلے کا حل اس میں موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک پروفیسر کے ایک بدھ بھکشو کے پاس گیا اور اسے کہنے لگا کہ میں بھی گیان حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ بھکشو نے اسے خوش آمدید کہا اور اپنے روایتی طریقہ کار کے مطابق اسے تعلیم دینے لگا۔ جب بھکشو بات کر رہا تھا تو پروفیسر بار بار مختلف نکات پر اس سے بحث کرنے لگا، اسے ٹوکنے اور قطع کلامی کرنے لگا۔ اس دوران چائے آ گئی۔ بھکشو نے ایک کپ میں چائے ڈالنا شروع کی۔ چائے کا کپ لبالب بھر گیا تو بھی بھکشو نے چائے ڈالنا جاری رکھا چائے کپ سے باہر گرنا شروع ہو گئی ۔ پروفیسر بولا "جناب کیا کر رہے ہیں... کب چائے سے بھر چکا ہے اور چائے کے کپ سے باہر گر رہی ہے"
بھکشو نے پوچھا "کیا کچھ سمجھ آیا؟"
جواب میں پروفیسر نے جب نفی میں سر ہلایا تو بھکشو دوبارہ گویا ہوا :
"جب تک اپنا کپ خالی نہیں کریں گے۔۔۔تب تک مزید چائے کے لیے اس میں گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ مجھ سے کچھ سیکھیں تو اپنی سابقہ علمیت کو پہلے ذہن سے نکال دیجیے"
جب تک ہم "Empty your cup" یعنی "اپنا کپ خالی کی جیے" کے اصول پر کاربند رہتے ہیں ۔۔۔ ہمارے سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ جہاں ہم اس اصول کو ترک کرتے ہیں وہیں ہمارا سیکھنے کا عمل جمود کا شکار ہو جاتا ہے ۔
ہم اساتذہ کے پاس "خالی کپ" لے کر جاتے ہیں ۔ ان کو استاد اور خود کو شاگرد تسلیم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ بحث و تکرار کا احتمال کم ہوتا ہے جب کہ روزمرہ زندگی میں جب ہم اپنے دوستوں، بیوی بچوں اور رشتہ داروں سے ملتے ہیں تو "بھرے ہوئے کپ" کے ساتھ ملتے ہیں اس لیے ان سے جب کوئی بات نئی بات سنتے ہیں تو اسے اپنے دل و دماغ میں جگہ دینے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ میری رائے کے مطابق اپنے سیکھنے کے عمل کو ہمیشہ جاری رکھنے کے لیے ہمیں حسب ذیل اصول زندگی کا حصہ بنانے چاہئیں:
- ہمیں تبدیلی کی خواہش کو اپنی زندگی میں جگہ دینی چاہیے۔ ہمیں یہ حقیقت دل سے تسلیم کرنی چاہیے کہ جس طریقے پر ہم کاربند ہیں کسی دوسرے کا طریقہ اس سے بہتر بھی ہو سکتا ہے۔
- ہمیں بہتر طریقے سے اپنا طریقہ بدلنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے ۔ ہمہ وقت بہتر طریقے کی تلاش میں رہنے کی کوشش بلآخر ہمیں اس طریقے تک پہنچا دیتی ہے جو بہترین ہوتا ہے
- نئے اور بہتر طریقے کو قبول کرنے کے لئے پرانے طریقے کو ترک کرنے یعنی "اپنا کپ خالی" کرنے کی صلاحیت ہمیں نہ صرف سیکھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ بہت سی بے جا بحثوں اور تکراروں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ بقول حضرت اقبال:
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بروس لی(Bruce Lee) نے یہی بات بڑی خوبصورتی سے یوں کہی ہے:
"Empty your cup so that it may be filled; become devoid to gain totality".