ای میل

یوں ہی ای میل سے آ جاتے ہیں سادہ سے خطوط
سادگی اتنی کہ خوشبو نہ وے رنگ لئے
ہاں وہی رنگ جو تیرے لب و رخسار کا ہے
اب تو کاغذ پہ کوئی نقش ابھرتا ہی نہیں
ہاں وہی نقش تیرے مہندی لگے ہاتھوں کا
اب کسی حرف سے آتی نہیں خوشبو تیری
کیسے الفاظ ہیں یہ جو تیری سانسوں کی مہک
بن سمیٹے ہوئے چپ چاپ چلے آتے ہیں
اتنی چپ چاپ کہ آہٹ بھی نہیں مل پاتی
کم سے کم دیکھیے آواز دیا کرتا تھا
اور اب ہم یہاں لوگوں کیا کرتے ہیں
خط کے پہلو میں اب آتا ہی نہیں زلف کا بال
اب تو محسوس نہیں ہوتی زبان تسلیم
اب تو اسکرین پہ آداب لیا کرتے ہیں
اب فقط ڈھونڈھ کے رہ جاتے ہیں صورت تیری
اب تو بس تو ہی سمجھتا ہے ضرورت میری
اے نئے دور یہ ای میل مبارک ہو تجھے
یہ ترقی کا نیا طور مبارک ہو تجھے
دل سلگتا ہے مگر دیکھ دھواں بھی تو نہیں
ہونٹ رکھوں تو کہاں پیروں کے نشاں بھی تو نہیں
دل کے بہلانے کو ان باکس میں گھوم آتا ہوں
عین ممکن ہے تیرا میل کوئی آیا ہو
گرچہ آیا بھی تو معلوم ہے کیا لائے گا
اک تسلی تیرا پیغام کوئی لایا ہو
جان کر زہر بھی ہم زہر پئے دیتے ہیں
جانے کیوں پیج کو ریفریش کئے دیتے ہیں
میل کھلتے ہی میرا سارا بھرم ٹوٹ گیا
دیکھیے کیا تو ہمیشہ کہ لئے چھوٹ گیا
تشنگی پھر سے وہی پھر سے وہی بے چینی
ہونٹ رکھوں تو کہاں پر کہ نشاں بھی تو نہیں