ایلن مسک ٹویٹرخرید کر کیا کرنے والے ہیں؟
سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹویٹر خاصا موثر ذریعہ ابلاغ بن کر ابھرا ہے۔ روز ایک نئی دھما چوکڑی اس پر دکھائی دیتی ہے۔ ٹویٹس ہوتے ہیں، ٹرینڈز بنتے ہیں، چیزیں وائرل ہوتیں ہیں اور لوگ اس پرایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے سے محسوس ہوتے ہیں۔ ٹویٹر پر روز کے چوہے بلی کے کھیل کے دوران چشم فلک نے نظارہ دیکھا ہے کہ یہ کھیل آج ٹویٹر پر نہیں بلکہ ٹویٹر کے لیے شروع ہو گیا اور پھر دنیا کے امیر ترین آدمی کی جیب میں جا گرا۔
یہ پچیس مارچ 2022 کا دن تھا۔ دو سو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثہ جات رکھنے والے دنیا کے امیر ترین آدمی ایلن مسک نے سماجی رابطے کی ایپ ٹویٹر پر ایک استصواب رائے کروایا۔ استصواب کے لیے ٹویٹ تھا:
"ایک چلتی ہوئی جمہوریت میں آزاد رائے بہت ضروری ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ٹویٹر اس اصول کی پاس داری کرتا ہے”
اس استصواب کو جاری کرنے کے بعد مسک نے مزید لکھا کہ دھیان سے رائے دی جیے گا۔ اس استصواب کے نتائج بہت اہم ہوں گے۔ اس استصواب کا نتیجہ تو جو بھی رہا لیکن ٹویٹر پر چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کوئی بولا مسک ٹویٹر کے مدمقابل سماجی رابطے کا پلیٹ فارم کھڑا کرنے جا رہے ہیں۔ کوئی بولا نہیں ڈونلڈ ٹرمپ، جنہیں ٹویٹر سے بین کر دیا گیا تھا ،کی سماجی رابطے کی ایپ ٹرتھ سوشل سے جڑنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے چہ میگوئی کی کہ مسک ٹویٹر ہی خریدنے جا رہے ہیں۔
چار اپریل 2022 کو اس استصواب کا مقصد سامنے آیا جب مسک نے ٹویٹر کے نو فیصد شیئرز خریدنے کا اعلان کیا۔ ان نو فیصد شیئرز کی مالیت 2.9 ارب ڈالر تھی۔ ساتھ ہی ٹویٹر کے بورڈ نے مسک کو بورڈ کا رکن بننے کی آفر کر ڈالی۔ یہ آفر اس لیے تھی کہ مسک پندرہ فیصد سے زائد ٹویٹر میں سٹیک حاصل نہ کر پائیں۔ یہ بہت ضروری تھا تاکہ مسک ٹویٹر کی پالیسیوں پر زیادہ اثر انداز نہ ہو پائیں۔ نو اپریل کو مسک نے اس پیش کش سے انکار کر دیا۔
چودہ اپریل کو مسک کی ٹویٹر خریدنے کی پیش کش سامنے آئی۔ اس کی قیمت مسک نے تینتالیس ارب ڈالر لگائی تھی۔ مسک کی پیش کش سے بورڈ نے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی مسک کے ارادے بھانپتے ہوئے ٹویٹر کے معاہدے میں پوائزن پل poison pill نامی شق لاگو کر دی۔ یہ شق کسی کو بھی ٹویٹر کے پندرہ فیصد سے زائد شیر خریدنے سے روکنے کے لیے تھی۔ اگلے چند دن بلی چوہے کا کھیل جاری رہا اور پھر چوبیس اپریل کو مسک کی ٹویٹر بورڈ سے میٹنگ طے پا گئی۔ پچیس اپریل کو بورڈ نے اعلان کر دیا کہ ہم نے ایلن مسک کو ٹویٹر کی فروخت چوالیس ارب ڈالر میں کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یوں ٹویٹر نے اپنے مالکان بدل لیے۔
اب رہا یہ سوال کہ دنیا کے امیر ترین آدمی نے اتنا مہنگا سودا کیا کیوں ؟
تو بھئی اس کا جواب مسک کی زبانی پڑھ لیں۔ مسک نے ایک جگہ بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹویٹر کو پبلک لمیٹڈ سے پرائیویٹ لمیٹڈ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے لیے فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹویٹر کی موجودہ انتظامیہ آزادی رائے کے اصول کی پاسداری اچھی طرح نہیں کر رہی۔ ایسا وہ اس لیے کہہ رہے تھے کہ ٹویٹر کی انتظامیہ اپنی پالیسیوں کی خلاف ورزی پر کسی کا بھی اکاؤنٹ غیر معینہ مدت تک منسوخ کر دیتی تھی۔ پچھلے سال 2021 میں، ٹویٹر نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جھوٹی خبریں پھیلانے پر اور نفرت انگیز ٹویٹ کرنے پر ان کا اکاؤنٹ غیر معینہ مدت تک منسوخ کر دیا ۔ اس پر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیان ٹویٹر سے سخت نالاں تھے۔ پھر مسک کا خیال ہے کہ ٹویٹر جعلی اکاؤنٹس اور آٹو بوٹس کو روکنے میں بھی ناکام ہے۔ وہ ٹویٹر کا انتظام سنبھال کر جعلی اکاؤنٹس کی روک تھام بھی کریں گے اور آزادی رائے کی اجازت بھی دیں گے۔
لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا کہ کیا آزادی رائے ہے اور کیا نہیں۔ یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ ایک چیز ایک گروہ کے لیے آزادی رائے ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے یہ بد تمیزی، گستاخی، نفرت انگیز بات اور جھوٹا پروپیگنڈا ہوتی ہے۔
دوسرا مسک ٹویٹر پر ٹویٹس میں ایڈٹ بٹن دینا چاہتے ہیں۔ یعنی اگر آپ نے کچھ ٹویٹ کیا ہے تو آپ اس کو بعد میں ایڈٹ کر سکیں گے۔ یہ آپشن بھی ٹویٹر صارفین میں خاصی دیر سے تنازع پیدا کیے ہوئے تھا۔ کیونکہ اس آپشن میں ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ صارفین جانتے ہیں کہ اگر کسی ٹویٹ کو وائرل کرنا یا اس کی بنیاد پر ٹرینڈ بنانا مقصود ہو تو اسے بار بار ری ٹویٹ کیا جاتا ہے۔ اب فرض کریں کہ ایک سیلیبریٹی نے اپنے ٹویٹ میں ایک چیز کی حمایت کی۔ اسے آٹھ نو ہزار لوگوں نے ری ٹویٹ کر دیا۔ بعد میں اس نے اپنا ٹویٹ ایڈٹ کیا اور کسی دوسری چیز کی حمایت کر دی۔ ظاہر ہے یہ ایڈٹنگ تمام ری ٹویٹس میں چلی جائے گی۔ حالانکہ لوگوں نے تو پہلی رائے کی بنیاد پر اسے ری ٹویٹ کیا تھا۔ ذرا سوچیں کہ یہ بٹن کس قدر تنازعات جنم دے سکتا ہے۔
پھر مسک چاہتے ہیں کہ ٹویٹر کا کوڈ اوپن سورس ہو۔ یہ ایک ٹیکنیکل بات ہے جو زیادہ تر ایپ ڈویلپر یا آئی ٹی سے تعلق رکھنے والے افراد ہی سمجھ پائیں گے۔ وہ ٹویٹر کوڈ اس لیے اوپن سورس رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ مختلف افراد اس کا تجزیہ کر کے اس میں بہتری کے لیے آرا دے سکیں۔ ساتھ ہی وہ ٹویٹر کے الگورتھم میں لوگوں کے مابین امتیازی سلوک کو روکنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹویٹر کا موجودہ الگورتھم مخصوص افراد کو دوسروں کی نسبت زیادہ پرموٹ کرتا ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے۔
ایلن مسک ٹویٹر کے کاروبار کے انداز میں بھی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹویٹر کاروبار کرنے میں اپنے پورے پوٹینشل کو استعمال نہیں کر رہا۔ یہ کہنے میں وہ خاصے حق بجانب بھی ہیں کیونکہ پچھلے برس جہاں پورے سال میں ٹویٹر نے دو ڈھائی ارب ڈالر کا ریوینیو کمایا، وہیں اس کے مد مقابل سماجی رابطے کی ایپس مثلاً فیس بک وغیرہ نے اسی ارب ڈالر کے لگ بگ رقم کمائی۔
ایلن مسک اپنی ٹویٹر کی خریداری پر خاصی خوش کن باتیں تو کر رہے ہیں، لیکن بہت سے لوگ انہیں کا پچھلا ریکارڈ دیکھتے ہوئے پریشانی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ٹویٹر ایسی سماجی رابطے کی ایپ بن کر ابھری ہے جو ممالک کی رائے عامہ سمیت بہت سی دیگر خبروں کی ترسیل کا ذریعہ بن گئی ہے۔ رپورٹر اور صحافی اس پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ ممالک کے سربرہان اپنی پالیسیاں ٹویٹر کے ذریعے جاری کر رہے ہیں اور اس کے ٹرینڈز کو خاصا سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔
ایسے پلیٹ فارم کا کسی ایک آدمی کے ہاتھ میں آ جانا، خاصے خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ جس آزادی رائے کے علم بردار آج مسک بنے نظر آتے ہیں، اسی کی ضرب اگر ان کے مفادات پر لگی تو وہ کہاں کھڑے ہوں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ماضی میں وہ اپنے ناقدوں کو دباتے بھی نظر آئے ہیں اور ایسی باتوں کو ہوا دیتے بھی نظر آئے ہیں جن سے ان کو فائدہ ہو۔
خیر!
جنہوں نے ٹویٹر بیچنا تھا وہ بیچ گئے اور جنہوں نے خریدنا تھا وہ خرید گئے۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ جو بھی ہو اس میں سے انسانیت کی بھلائی نکلے۔ بس اس کے امکان ہی اس ڈیل میں کم لگ رہے ہیں۔