الیکشن

ساقی شراب دے کہ الیکشن ہے آج کل
برسیں گے ووٹ جس میں وہ ساون ہے آج کل
جمہوریت کے پاؤں میں جھانجن ہے آج کل
یہ ملک اس کے ناچ کا آنگن ہے آج کل
سودا ہے لیڈری کا جو دل کو ستائے ہے
''دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
لو ہو گیا ہے اونٹ الیکشن کا بے نکیل
اب لٹھ چلیں گے جلسوں میں آباد ہوں گے جیل
پھر لیڈروں کی ہوگی اکھاڑوں میں ریل پیل
ووٹوں کی ہر دکان پہ ہوگی گرانڈ سیل
ووٹوں سے بڑھ کے اب کوئی ہتھیار بھی نہیں
''لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں''
زندہ ہے وہ کہ جس کا رجسٹر میں نام ہے
اور زندگی شریفوں کے اوپر حرام ہے
ہیں جس کے پاس ووٹ مدارالمہام ہے
لیلائے لیڈری کی وہ تھامے لگام ہے
لیڈر کے منہ پہ شہر کے کوچوں کی گرد ہے
''عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد ہے''
وقت آ گیا ضمیر کی بیع و خرید کا
امپورٹ کے لسنس کے وعدے وعید کا
دن ہے برادری و قبائل کی عید کا
آپس میں گلہ بانوں کی گفت و شنید کا
مسلم کو بے شک ایسی مساوات چاہئے
''عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہئے''
دنگل کی کشتیوں میں ہر اک چیز ہے روا
یعنی ملے گی ملت عاصی کو ہر دوا
نغمے کا دور، دور مے و رقص کا مزا
جس کو زبان کہہ نہ سکے اس سے بھی سوا
لکھا ہوا ہے قسمت امیدوار میں
''اڑتی پھرے گی خاک تری کوئے یار میں''
اہل بصیرت اب نہیں دیکھیں گے کھوٹ کو
حاصل کریں گے لاکھ طریقوں سے ووٹ کو
پانی ہی کی طرح سے بہائیں گے نوٹ کو
روکیں گے زر کی ڈھال پہ دشمن کی چوٹ کو
ووٹر کو بخشا جائے گا بھاری مشاہرہ
پھر جیت کی خوشی میں کریں گے مشاعرہ
آئیں گے ووٹ دینے کو جب جاہلان قوم
ان کو دکھائے جائیں گے پہلے نشان قوم
گینڈا نشان رکھے گا اک پہلوان قوم
ہے اونٹ کوئی کوئی یکے از خران قوم
انسانیت کی قید سے سب ہو گئے بری
ان کا معالجہ ہو تو ہوگا ووٹرنری