ایک زاہدہ، ایک فاحشہ

جاوید مسعود سے میرا اتنا گہرا دوستانہ تھا کہ میں ایک قدم بھی اس کی مرضی کے خلاف اٹھا نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھ پر نثار تھا میں اس پر۔ ہم ہر روز قریب قریب دس بارہ گھنٹے ساتھ ساتھ رہتے۔


وہ اپنے رشتے داروں سے خوش نہیں تھا اس لیے جب بھی وہ بات کرتا تو کبھی اپنے بڑے بھائی کی برائی کرتا اور کہتا سگ باش برادر خوردمباش اور کبھی کبھی گھنٹوں خاموش رہتاجیسے خلاء میں دیکھ رہا ہے۔ میں اس کے ان لمحات سے تنگ آ کر جب زور سے پکارتا، ’’جاوید یہ کیا بے ہودگی ہے؟‘‘


وہ ایک دم چونکتااور معذرت کرتا اوہ۔۔۔ سعادت بھائی معاف کرنا۔۔۔اچھا تو پھر کیا ہوا؟‘‘


وہ اس وقت بالکل خالی الذہن ہوتا۔۔۔ میں کہتا،’’بھئی جاوید دیکھو۔۔۔مجھے تمہارا یہ وقتاً فوقتاً معلوم نہیں کن گہرائیوں میں کھو جانا بالکل پسندنہیں۔۔۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے۔۔۔ ایک دن تم پاگل ہو جاؤ گے۔ یہ سن کر جاوید بہت ہنسا، ’’پاگل ہونا بہت مشکل ہے سعادت۔‘‘ لیکن آہستہ آہستہ اس کا خلائیں دیکھنا بڑھتا گیا اور اس کی خاموشی طویل سکوت میں تبدیل ہوگئی اور وہ پیاری سی مسکراہٹ جو اس کے ہونٹوں پر ہر وقت کھیلتی رہتی تھی بالکل پھیکی پڑ گئی۔


میں نے ایک دن اس سے پوچھا، ’’ آخر بات کیا ہے تم ٹھہرے پانی بن گئے ہو۔۔۔ ہوا کیا ہے تمھیں۔۔۔؟ میں تمہارا دوست ہوں۔۔۔ خدا کے لیے مجھ سے تو اپنا راز نہ چھپاؤ۔ ‘‘جاوید خاموش رہا۔ جب میں نے اس کو بہت لعن طعن کی تو اس نے اپنی زبان کھولی، ’’میں کالج سے فارغ ہو کر ڈیڑھ بجے کے قریب آؤں گا۔ اس وقت تمھیں جو پوچھنا ہوگا بتا دوں گا۔ ‘‘


وعدے کے مطابق وہ ٹھیک ڈیڑھ بجے میرے یہاں آیا۔ وہ مجھ سے چار سال چھوٹا تھا۔ بے حد خوبصورت۔ اس میں نسوانیت کی جھلک تھی۔ پڑھائی سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے میں آوارہ گرد تھا لیکن وہ باقاعدگی کے ساتھ تعلیم حاصل کررہا تھا۔ میں اس کو اپنے کمرے میں لے گیا۔ جب میں نے اس کو سگریٹ پیش کیا تو اس نے مجھ سے کہا،’’تم میرے روگ کے متعلق پوچھنا چاہتے تھے؟‘‘ میں نے کہا،’’مجھے معلوم نہیں روگ ہے یا سوگ، بہر حال تم نارمل حالت میں نہیں ہو۔۔۔ تمھیں کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور ہے۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’ہے ۔۔۔اس لیے کہ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی ہے ۔‘‘


محبت۔۔۔! میں بوکھلا گیا۔۔۔ جاوید کی عمر بمشکل اٹھارہ برس کی ہوگی۔۔۔ وہ خود ایک خوبرو لڑکی کی مانندتھا۔ اس کو کس لڑکی سے محبت ہوسکتی ہے، یا ہوگئی ہے ۔وہ تو کنواری لڑکیوں سے کہیں زیادہ شرمیلا اور لچکیلا تھا۔ وہ مجھ سے باتیں کرتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ ایک دہقانی دوشیزہ ہے جس نے پہلی دفعہ کوئی عشقیہ فلم دیکھا ہے۔ آج وہی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی ہے۔ میں نے پہلے سمجھا شاید مذاق کر رہا ہے مگر اس کا چہرہ بہت سنجیدہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کر فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ آخر میں نے پوچھا، ’’کس لڑکی سے محبت ہوگئی ہے تمھیں؟‘‘


اس نے کوئی جھینپ محسوس نہ کی،’’ایک لڑکی ہے زاہدہ۔۔۔ ہمارے پڑوس میں رہتی ہے ، بس اس سے محبت ہوگئی ہے ۔عمر سولہ برس کے قریب ہے ،بہت خوبصورت ہے اور بھولی بھالی۔۔۔ چوری چھپے اس سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، اس نے میری محبت قبول کر لی ہے۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا،’’تو پھر اس اداسی کا مطلب کیا ہے جو تم پر ہر وقت چھائی رہتی ہے۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا،’’سعادت تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو ۔۔۔ محبت اداسی کا دوسرا نام ہے۔۔۔ ہر وقت آدمی کھویا کھویا سا رہتا ہے، اس لیے کہ اس کے دل و دماغ میں صرف خیالِ یار ہوتا ہے ۔۔۔میں نے زاہدہ سے تمہارا ذکر کیا اور اس سے کہا کہ تمہارے بعد اگر کوئی ہستی مجھے عزیز ہے تو وہ میرا دوست سعادت ہے۔‘‘

’’یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘


’’بس، میں نے کہہ دیا۔۔۔ اور زاہدہ نے بڑا اشتیاق ظاہر کیا کہ میں تمھیں اس سے ملاؤں۔ اسے میری وہ چیز پسند ہے جسے میں پسند کرتا ہوں۔۔۔ بولو، چلو گے اپنی بھابی کو دیکھنے؟‘‘ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس سے کیا کہوں، اس کے پتلے پتلے نازک ہونٹوں پر لفظ بھابی سجتا نہیں تھا۔


’’ میری بات کا جواب دو۔‘‘


میں نے سرسری طور پر کہہ دیا، ’’چلیں گے۔۔۔ ضرور چلیں گے۔۔۔ پر کہاں ؟‘‘


’’اس نے مجھ سے کہا تھا کہ کل وہ شام کو پانچ بجے کسی بہانے سے لارنس گارڈن آئے گی۔۔۔ آپ اپنے پیارے دوست کو ضرور ساتھ لائیے گا۔۔۔اب تم کل تیار رہنا۔۔۔ بلکہ خود ہی پانچ بجے سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جانا۔ ہم جم خانہ کلب کے اس طرف لان میں تمہار اانتظار کرتے ہوں گے۔ ‘‘میں انکار کیسے کرتا ، اس لیے کہ مجھے جاوید سے بے حد پیار تھا۔ میں نے وعدہ کر لیا لیکن مجھے اس پر کچھ ترس آرہا تھا۔ میں نے اس سے اچانک پوچھا، ’’لڑکی شریف اور پاکباز ہے نا؟‘‘


جاوید کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا، ’’میں زاہدہ کے بارے میں ایسی باتیں سوچ سکتا ہوں نہ سن سکتا ہوں۔۔۔ تمھیں اگر اس سے ملنا ہے تو کل شام کو ٹھیک پانچ بجے لارنس گارڈن پہنچ جانا۔۔۔ خدا حافظ۔‘‘ جب وہ ایک دم اٹھ کر چلا گیا تو میں نے سوچنا شروع کیا۔ مجھے بڑی ندامت محسوس ہوئی کہ میں نے کیوں اس سے ایسا سوال کیا جس سے اس کے جذبات مجروح ہوئے ۔۔۔ آخر وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ اگر کوئی لڑکی کسی سے محبت کرے تو ضروری نہیں وہ بد کردار ہو۔ جاوید مجھے اپنا مخلص ترین دوست یقین کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ناراضی کے باوجود مجھ سے برہم نہ ہوا اور مجھ کو جاتے ہوئے کہہ گیا کہ وہ شام کو لارنس گارڈن آئے۔


میں سوچتا تھا کہ زاہدہ سے مل کر میں اس سے کس قسم کی باتیں کروں گا۔ بے شمار باتیں میرے ذہن میں آئیں لیکن وہ اس قابل نہیں تھیں کہ کسی دوست کی محبوبہ سے کی جائیں۔ میرے متعلق خدا معلوم وہ اس سے کیا کچھ کہہ چکا تھا۔۔۔ یقیناًاس نے مجھ سے اپنی محبت کا اظہار بڑے والہانہ طور پر کیا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زاہدہ کے دل میں میری طرف سے حسد پیدا ہوگیا ہو کیونکہ عورتیں اپنے عاشقوں کی محبت بٹتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شاید میرا مذاق اڑانے کے لیے اس نے جاوید سے کہا ہو کہ تم مجھے اپنے پیارے دوست سے ضرور ملاؤ۔


بہر حال مجھے اپنے عزیز ترین دوست کی محبوبہ سے ملنا تھا۔۔۔ اس تقریب پر میں نے سوچا ، کوئی تحفہ تو لے جانا چاہیے۔۔۔ رات بھر غور کرتا رہا۔ آخر ایک تحفہ سمجھ میں آیا کہ سونے کے ٹاپس ٹھیک رہیں گے۔ انارکلی میں گیا تو سب دکانیں بند، معلوم ہوا کہ اتوار کی تعطیل ہے۔۔۔ لیکن ایک جوہری کی دکان کھلی تھی۔ اس سے ٹاپس خریدے اور واپس گھر آیا۔ چار بجے تک شش و پنج میں مبتلا رہا کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ مجھے کچھ حجاب سا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ لڑکیوں سے بے تکلف باتیں کرنے کا میں عادی نہیں تھااس لیے مجھ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا۔


دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد میں نے کچھ دیر سونا چاہا مگر کروٹیں بدلتا رہا۔ ٹاپس میرے تکیے کے نیچے پڑے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ دو دہکتے ہوئے انگارے ہیں۔۔۔ اٹھا۔۔۔ غسل کیا۔۔۔ اس کے بعد شیو۔۔۔ پھر نہایا اور کپڑے بدل کر بڑے کمرے میں کلاک کی ٹک ٹکٹ سننے لگا۔ تین بج چکے تھے۔ اخبار اٹھایا۔۔۔ مگر اس کی ایک خبر بھی نہ پڑھ سکا۔۔۔ عجب مصیبت تھی۔ عشق میرا دوست جاوید کر رہا تھا اور میں ایک قسم کا مجنوں بن گیا تھا۔ میرا بہترین سوٹ رینکن کا سلا ہوا میرے بدن پر تھا۔ رومال نیا، شو بھی نئے۔۔۔ میں نے یہ سنگھار اس لیے کیا تھا کہ جاوید نے جو تعریف کے پل زاہدہ کے سامنے باندھے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں۔ ساڑھے چار بجے میں اٹھا۔ اپنی ریلے کی سبز سائیکل لی اور آہستہ آہستہ لارنس گارڈن روانہ ہوگیا۔


جم خانہ کلب کے اس طرف لان میں مجھے جاوید دکھائی دیا۔ وہ اکیلا تھا، اس نے زور کا نعرہ بلند کیا۔ میں جب سائیکل پر سے اترا تو وہ میرے ساتھ چمٹ گیا ، کہنے لگا، ’’تم پہلے ہی پہنچ گئے بہت اچھا کیا۔۔۔ زاہدہ اب آتی ہی ہوگی۔۔۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ میں اپنی کار بھیج دوں گا مگر وہ رضا مند نہ ہوئی۔ تانگے میں آئے گی۔ ‘‘


جاوید کے باپ کی ایک کار تھی۔ بے بی آسٹن۔ خدا معلوم کس صدی کا ماڈل تھا۔ زیادہ تر یہ جاوید ہی کے استعمال میں آتی تھی۔ لارنس گارڈن میں داخل ہوتے وقت یہ عجوبۂ روزگار موٹر دیکھ لی تھی۔ میں نے اس سے کہا،’’آؤ بیٹھ جائیں۔‘‘ لیکن وہ رضا مند نہ ہوا ۔مجھ سے کہنے لگا،’’تم ایسا کرو۔۔۔باہر گیٹ پر جاؤ ۔۔۔ایک تانگہ آئے گا، جس میں ایک دبلی پتلی لڑکی سیاہ برقع پہنے ہوگی۔ تم تانگے والے کو ٹھہرا لینا اور اس سے کہنا، ’’جاوید کا دوست سعادت ہوں۔۔۔اس نے مجھے تمہارے استقبال کے لیے بھیجا ہے۔‘‘


نہیں جاوید۔۔۔ مجھ میں اتنی جرأت نہیں۔‘‘


’’ لاحول ولا۔۔۔ جب تم نام بتا دو گے تو اسے چوں کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوگی۔۔۔تمہاری جرأت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔۔۔ یار، زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جسے بعد میں یاد کر کے آدمی محظوظ ہوسکے۔۔۔ جب زاہدہ سے میری شادی ہو جائے گی تو ہم آج کے اس واقعے کو یاد کر کے خوب ہنسا کریں گے۔۔۔ جاؤ میرے بھائی۔۔۔ وہ بس اب آتی ہی ہوگی۔‘‘ میں جاوید کا کہنا کیسے موڑ سکتا تھا۔ بادل نخواستہ چلا گیا اور گیٹ سے کچھ دور کھڑا رہ کر اس تانگے کا انتظار کرنے لگا جس میں زاہدہ اکیلی کالے برقعے میں ہو۔

آدھے گھنٹے کے بعد ایک تانگہ اندر داخل ہوا جس میں ایک لڑکی کالے ریشمی برقعے میں ملبوس پچھلی نشست پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھی تھی۔


میں جھینپتا، سمٹتا ،ڈرتا آگے بڑھا اور تانگے والے کو روکا۔ اس نے فوراً اپنا تانگہ روک لیا ۔میں نے اس سے کہا،’’یہ سواری کہاں سے آئی ہے؟‘‘


تانگے والے نے ذرا سختی سے جواب دیا،’’تمھیں اس سے کیا مطلب ۔۔۔جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘ برقع پوش لڑکی نے مہین سی آواز میں تانگے والے کو ڈانٹا،’’تم شریف آدمیوں سے بات کرنا بھی نہیں جانتے۔ ‘‘پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی،’’آپ نے تانگہ کیوں روکا تھا جناب؟‘‘ میں نے ہکلا کے جواب دیا،’’جاوید۔۔۔ جاوید۔۔۔ میں جاوید کا دوست سعادت ہوں ۔۔۔آپ کا نام زاہدہ ہے نا۔ ‘‘اس نے بڑی نرمی سے جواب دیا،’’جی ہاں! میں آپ کے متعلق ان سے بہت سی باتیں سن چکی ہوں۔‘‘


’’اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے اسی طرح ملوں اور دیکھوں کہ آپ مجھ سے کس طرح پیش آتی ہیں۔۔۔ وہ ادھر جم خانہ کلب کے پاس گھاس کے تختے پر بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا ہے۔‘‘اس نے اپنی نقاب اُٹھائی، اچھی خاصی شکل صورت تھی۔ مسکرا کر مجھ سے کہا، ’’آپ اگلی نشست پر بیٹھ جائیے، مجھے ایک ضروری کام ہے، ابھی چند منٹوں میں لوٹ آئیں گے، آپ کے دوست کو زیادہ دیر تک گھاس پر نہیں بیٹھنا پڑے گا۔


میں انکار نہیں کرسکتا تھا۔ اگلی نشست پر کوچوان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ تانگہ اسمبلی ہال کے پاس سے گزرا تو میں نے تانگے والے سے کہا،’’بھائی صاحب! یہاں کوئی سگرٹ والے کی دکان ہو تو ذرا دیر کے لیے ٹھہر جانا، میرے سگریٹ ختم ہوگئے ہیں۔ ‘‘


ذرا آگے بڑھے تو سڑک پر ایک سگریٹ پان والا بیٹھا تھا۔ تانگے والے نے اپنا تانگہ روکا۔ میں اترا تو زاہدہ نے کہا آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔۔۔ یہ تانگے والا لے آئے گا۔ ‘‘میں نے کہا،’’اس میں تکلیف کی کیا بات ہے؟‘‘ اور اس پان سگرٹ والے کے پاس پہنچ گیا۔ ایک ڈبیہ گولڈ فلیک کی لی،ایک ماچس اور دو پان۔ جب پانچ کے نوٹ سے باقی پیسے لے کر مڑا تو کوچوان میرے پیچھے کھڑا تھا، اس نے دبی زبان میں مجھ سے کہا،’’حضور اس عورت سے بچ کے رہیے گا۔ ‘‘


میں بڑا حیران ہوا،’’کیوں؟‘‘


کوچوان نے بڑے وثوق سے کہا، ’’فاحشہ ہے۔۔۔اس کا کام ہی یہی ہے کہ شریف اور نوجوان لڑکوں کو پھانستی رہے ۔۔۔میرے تانگے میں اکثر بیٹھتی ہے۔‘‘


یہ سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں نے تانگے والے سے کہا،’’خدا کے لیے تم اسے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے لائے ہو، کہہ دینا کہ میں اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتا اس لیے کہ میرا دوست وہاں لارنس گارڈن میں انتظار کررہا ہے۔ ‘‘تانگے والا چلا گیا۔۔۔ معلوم نہیں اس نے زاہدہ سے کیا کہا۔ میں نے ایک دوسرا تانگہ لیا اور سیدھا لارنس گارڈن پہنچا، دیکھا جاوید ایک خوبصورت لڑکی سے محو گفتگو ہے۔ وہ بڑی شرمیلی اور لجیلی تھی۔ میں جب پاس آیا تو اس نے فوراً اپنے دوپٹہ سے منہ چھپا لیا۔


جاوید نے بڑی خفگی آمیز لہجے میں مجھ سے کہا،’’ تم کہاں غارت ہوگئے تھے ؟تمہاری بھابی کب کی آئی بیٹھی ہیں۔ ‘‘سمجھ میں نہ آیا کیا کہوں۔۔۔سخت بوکھلا گیا۔۔۔ اس بوکھلاہٹ میں یہ کہہ گیا،’’تو وہ کون تھیں جو مجھے تانگے میں ملیں؟‘‘جاوید ہنسا۔ مذاق نہ کرو مجھ سے۔۔۔ بیٹھ جاؤ اور اپنی بھابی سے باتیں کرو، یہ تم سے ملنے کی بہت مشتاق تھیں۔ ‘‘


میں بیٹھ گیا اور کوئی سلیقے کی بات نہ کرسکا اس لیے کہ میرے دل و دماغ پر وہ لڑکی یا عورت مسلط ہوگئی تھی جس کے متعلق تانگے والے نے مجھے بڑے خلوص سے بتا دیا تھا کہ فاحشہ ہے۔