ایک یاد کا روزن
میری یادوں میں سے ایک یاد مجھے
تا دم مرگ نہیں بھولے گی
میری اس یاد کا روزن دریچہ ہے جس میں سے مجھے
کتنے گزرے ہوئے پل صاف نظر آتے ہیں
کچی مٹی کو جو تختی پہ چلاؤں تو یہ دھرتی جیسے
اپنی خوشبو میں مجھے نہلائے
روشنائی میں قلم کو جو ڈوبو دوں
تو مجھے روز ازل یاد آئے
لفظ لکھوں سر قرطاس
تو پھولوں کی قطاریں لگ جائیں
حرف کے دائرے سیارے سے بنتے جائیں
اور نقطے وہ چمکتے ہوئے تارے
جو کبھی تیرے ہیں اور کبھی ڈوبتے ہیں
میرے ماضی کا یہ روزن مجھے دکھلاتا ہے ہر سو غنچے
وہ جو تخلیق کے موسم میں چٹختے ہیں
تو ہر رنگ کے دل دار مفاہیم کے انبار سے لگ جاتے ہیں
میرے ماضی کا یہ وہ روزن ہے
جس میں جھانکوں تو وہاں
جھٹپٹے اور شفق اور طلسمی سی الوہی سی خموشی کی فضا طاری ہے
اور اک سمت اندھیرے میں دمکتے ہوئے چہروں کی ندی جاری ہے
یہ وہ منظر ہے کہ جو
علم و منطق کے صحیفوں سے کئی لاکھ گنا بھاری ہے