ایک تھا راجہ چھوٹا سا

علی افتخارؔ کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو
تتلیوں کے قریب جانے سے روکئے
اسے روکئے کہ پڑوسیوں کے گھروں میں جھولے پڑے ہوئے ہیں تو اس سے کیا
اسے کیا پڑی کہ کبوتروں کو بتائے کیسے ہوائیں اس کی پتنگ چھین کے لے گئیں
علی افتخارؔ کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے
کو تتلیوں کے قریب جانے سے روکئے
کہیں یوں نہ ہو کہ پھر ایک بار بھری بہار میں اعتبار کے سارے زخم مہک اٹھیں
کہیں یوں نہ ہو کہ نئے سرے سے ہمارے زخم مہک اٹھیں
علی افتخارؔ کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو
تتلیوں کے قریب جانے سے روکئے