ایک شبیہ

کچھ دنوں سے قریب دل ہے وہ دن
جب اچانک اسی جگہ اک شکل
میری آنکھوں میں مسکرائی تھی


ایک پل کے لیے تو ایک وہ شکل
جانے کیا کچھ تھی جھوٹ بھی سچ بھی
شاید اک بھول شاید اک پہچان


کچھ دنوں سے تو جان بوجھ کے اب
یہ سمجھنے لگا ہوں میں ہی تو ہوں
جس کی خاطر یہ عکس ابھرا ہے
کچھ دنوں سے تو اب میں دانستہ
اس گماں کا فریب کھاتا ہوں


روز اک شکل اس دوراہے پر
اب مرا انتظار کرتی ہے
ایک دیوار سے لگی ہر صبح
ٹکٹکی باندھے نیم رخ یکسو
اب مرا انتظار کرتی ہے
میں گزرتا ہوں مجھ کو دیکھتی ہے
میں نہیں دیکھتا وہ دیکھتی ہے
اس کے چہرے کی ساخت ساعت دید
زرد ہونٹوں کی پتریاں پیتل
سرخ آنکھوں کی ٹکڑیاں قرمز
روغنی دھوپ میں دھنستے ہوئے پاؤں
منتظر منتظر اداس اداس


اک یہی چہرہ ایک پل کے لیے
جانے کیا کچھ تھا لیکن اب تو مجھے
اپنی یہ بھول بھولتی ہی نہیں
ایک دن یہ شبیہ دیکھی تھی
کچھ دنوں سے قریب دل ہے وہ دن
کچھ دنوں سے تو بیتتے ہوئے دن
اسی اک دن میں ڈھلتے جاتے ہیں
دن گزرتے ہیں اب تو یوں جیسے
عمر اس دن کا ایک حصہ ہے
عمر گزری یہ دن نہیں گزرا
جس طرف جاؤں جس طرف دیکھوں
مجھ سے اوجھل بھی مرے سامنے بھی
شکل اک ٹین کے ورق پہ رہی
شکل اک دل کے چوکھٹے میں رہی