ایک شب کا مسافر

مجھے کیا خبر تھی
کہ تم میری انگلی پکڑ کر چلو گی
شب کی تاریک سرحد سے
باہر نکلتے ہی
دن کے اجالے میں
پہلا قدم رکھتے ہی
مسکرا کر کہو گی
دیکھیے شکریہ
اب یہاں سے میں
سورج کی کرنوں کے ہم راہ
خود ہی چلی جاؤں گی
اور میں
مڑ کے دیکھوں گا ان راستوں کو
جو یوں شب زدہ ہو چکے ہوں
کہ اپنا پتہ کھو چکے ہوں