ایک شام
یوں تو لمحوں کے اس تسلسل میں
اب سے پہلے بھی عمر کٹتی تھی
موم بتی کی روشنی میں نظر
حافظے کے ورق الٹتی تھی
ریت کے سوگوار ٹیلوں پر
چاندنی رات بھر بھٹکتی تھی
آج لیکن تھکے ہوئے دل پر
جسم کا تار تار بھاری ہے
شام کی دم بخود ہواؤں پر
صبح کا انتظار بھاری ہے
مقبروں سے اٹھی ہوئی آندھی
ٹہنیوں سے الجھ کے چلتی ہے
خشک پلکوں پہ آنسوؤں کی امید
پے بہ پے کروٹیں بدلتی ہے
ایک اک عکس سانس لیتا ہے
ایک اک یاد آنکھ ملتی ہے
جیسے صحرا میں سر جھکائے ہوئے
حاجیوں کی قطار چلتی ہے
زرد چنگاریوں کے دامن میں
یوں سلگتا ہے سرد آتش دان
جیسے بچوں کی بھوک کے آگے
ایک نادار باپ کا ایمان
دم بخود خامشی میں دھیرے سے
زرد پتے قدم اٹھاتے ہیں
یاد کے کارواں اندھیرے میں
خواب کی طرح سرسراتے ہیں
کھڑکیوں کے ڈرے ہوئے چہرے
اپنی آہٹ سے کانپ جاتے ہیں
دل کی قربان گاہ کے آگے
ایک ٹوٹا ہوا دیا بھی نہیں
کسی پیپل کے نرم سائے میں
کوئی پتھر کا دیوتا بھی نہیں
روح کے کاسۂ گدائی کو
چار ٹکڑوں کا آسرا بھی نہیں
لمبی چوڑی سڑک کے دامن پر
قمقمے سہمے سہمے جلتے ہیں
جیسے اکثر بڑے گھرانوں میں
فاقہ کش رشتہ دار پلتے ہیں
سوچتا ہوں کہ اس دیار سے دور
ایک ایسا بھی دیس ہے جس کی
رات تاروں میں سج کے آئے گی
صبح ہوگی تو گھر کے گوشوں میں
تیری معصوم مسکراہٹ کی
نرم سی دھوپ پھیل جائے گی