ایک رقاصہ کو دیکھ کر
دل کے بجھے چراغ جلاتی چلی گئی
قدموں سے سوئے فتنے جگاتی چلی گئی
شعلہ تھا وہ لپکتا ہوا یا کہ برق تھی
رگ رگ میں آگ سی وہ لگاتی چلی گئی
یا جسم کو وہ خم کہ کماں کام دیو کی
کس کس ادا سے تیر چلاتی چلی گئی
پھولوں کی ڈالیوں کی لچک بازوؤں میں تھی
بل نازکی کے بوجھ سے کھاتی چلی گئی
نظم حسیں کہیں کہ اسے ہم غزل کا شعر
اہل نظر کو وجد میں لاتی چلی گئی
ایک جنبش نظر سے لچکتی کمر سے وہ
کیا کیا فسانے دل کے سناتی چلی گئی
رخ پر برہ کا رنگ ہے یا کہ ملن کی آس
دنیائے سوز و ساز دکھاتی چلی گئی
خوابوں کی بستیوں میں اڑائے لیے پھری
یادوں کا ایک شہر بساتی چلی گئی
اس دور مے کشی میں کسے ہوش تھا حبیبؔ
کب آئی اور کب وہ پلاتی چلی گئی