ایک نظم

میں نے ڈھونڈا تمہیں لمحوں کے سیہ خانے میں
سرمگیں رات کا لرزیدہ ستارہ جیسے
عمر جس کی ہو بس اک شب کی پریشاں نظری


تم نے دیکھا مجھے
ایام کے چٹخے ہوئے آئینے میں
شمع خود سوختہ کی طرح
پگھلتے ہوئے لمحہ لمحہ


برق پا وقت کی ہر موج ہے
خاشاک ہیں یہ شام و سحر یہ مہ و سال


کوئی لرزیدہ ستارہ
کوئی ہر لحظہ پگھلتی ہوئی شمع ہستی
رات کی بانہوں میں
چند دہکے ہوئے انگاروں کی سوغات لیے
کسی مقسوم کسی معنیٔ موہوم کا رشتہ ڈھونڈیں
یہ بھی ممکن نہیں
یہ بھی نہیں تقدیر وجود
برق پا وقت کی ہر موج ہے
سیماب سے اصنام ترشتے ہیں کہاں
حلقہ در حلقہ حبابوں ہی کی زنجیریں ہیں
کیا کسی خواب کے چہرے سے اٹھائے کوئی سنگین حقیقت کی نقاب
کیوں کسی برق صفت لمحے کا دامن تھامے
کس لئے کھوئے ہوئے وقت کا ماتم
کہ یہ ماتم کدہ فردا بھی ہے امروز بھی
دیروز بھی ہے