ایک نظم
گاڑی گزر گئی
دھوئیں اور دھول کی چھتری نے
مٹی کو ڈھانپ دیا
کبوتر خوش الحان مؤذن کے
اعراب جڑے جملوں کے بیچ
کابک سے سر ٹکراتا ہے
ٹوٹی میز پہ میں نے آنکھیں رکھی ہیں
اور گٹھری بن کر
کرسی پہ بیٹھا ہوں
میں جو اپنے میلے کفن کی سوندھی خوشبو
سونگھ چکا ہوں جان گیا ہوں
اک یا دو فرلانگ فرار کا راستہ ہے
جینا جیتے رہنا ہی نعمت ہے
جنگل ہے اور گریے کی شاخوں سے دست سوال
کاسہ بن کر لٹکا ہے
میں کاسے میں چھپ کر بیٹھا ہوں
گھر کا سارا ساز و سامان بیچ کر نکلا ہوں
یہ سوچ کر گھر سے نکلا ہوں