ایک نظم
اے کسی گلشن زریں کی گراں قدر کلی
اپنی اجڑی ہوئی مہکار چھپا لے مجھ سے
اے کسی بستر کم خواب کی بے رنگ شکن
اپنا روندا ہوا کردار چھپا لے مجھ سے
اے کسی جنت زر فام سے آنے والی
اپنا ٹوٹا ہوا پندار چھپا لے مجھ سے
تو نے اک بار کہا تھا مجھے تنہائی میں
پیار دولت کا پرستار نہیں ہو سکتا
زندگی حرص کے پہلو میں نہیں سو سکتی
جسم رسوا سر بازار نہیں ہو سکتا
ولولے روح کے نیلام نہیں ہو سکتے
حسن ذلت کا پرستار نہیں ہو سکتا
مصلحت آج مگر جیت چکی ہے تجھ کو
کوئی کس منہ سے کہے مونس و غم خوار تجھے
کوئی کس دل سے کہے پیار کی رانی تجھ کو
کوئی کس طرح کہے پیکر ایثار تجھے
تو نے بیچی ہے سر عام جوانی اپنی
گدگداتی ہے زر و سیم کی جھنکار تجھے
یہ ترا پیار ترے جسم کا سودا ہی سہی
اب تری روح ترے پاس نہیں آئے گی
یہ ترا دل کہ بھٹکتا ہی چلا جاتا ہے
اس میں اب شدت احساس نہیں آئے گی
تو نے ہر چند گراں نرخ یہ جلوے بیچے
یہ تجارت بھی تجھے راس نہیں آئے گی
دیکھ اس دور جہاں سوز کے ویرانے میں
لذت جسم کے طوفان بہ ہر گام اٹھے
کیا یہی تجھ کو سکھایا ہے نظام زر نے
کہ محبت کا جنازہ سحر و شام اٹھے
کیا یوں ہی پیار کی توقیر ہوا کرتی ہے
کہ مہکتی ہوئی ہر سانس کا نیلام اٹھے
دیکھ اس دہر میں ارباب ہوس کے ہاتھوں
آبرو پیار کی مٹی میں ملی جاتی ہے
حرص کا شور فضاؤں میں رچا جاتا ہے
بات اخلاص کی ہونٹوں میں سلی جاتی ہے
سادگی حسن کا مجروح تبسم بن کر
کسی جلاد کے چہرے پہ کھلی جاتی ہے
تو کہ اب تجھ سے مجھے کوئی سروکار نہیں
بن کے تو کس کے لئے آئنہ رو آتی ہے
یہ نمائش کی محبت اسے میں جانتا ہوں
کیوں مرے سامنے سہمی ہوئی تو آتی ہے