ایک نظم
دانشور کہلانے والو
تم کیا سمجھو
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
تھل کے ریگستان میں رہنے والے لوگو
تم کیا جانو
ساون کیا ہے
اپنے بدن کو
رات میں اندھی تاریکی سے
دن میں خود اپنے ہاتھوں سے
ڈھانپنے والو
عریاں لوگو
تم کیا جانو
چولی کیا ہے دامن کیا ہے
شہر بدر ہو جانے والو
فٹ پاتھوں پر سونے والو
تم کیا سمجھو
چھت کیا ہے دیواریں کیا ہیں
آنگن کیا ہے
اک لڑکی کا خزاں رسیدہ بازو تھامے
نبض کے اوپر ہاتھ جمائے
ایک صدا پر کان لگائے
دھڑکن سانسیں گننے والو
تم کیا جانو
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
دھڑکن کیا ہے جیون کیا ہے
سترہ نمبر کے بستر پر
اپنی قید کا لمحہ لمحہ گننے والی
یہ لڑکی جو
برسوں کی بیمار نظر آتی ہے تم کو
سولہ سال کی اک بیوہ ہے
ہنستے ہنستے رو پڑتی ہے
اندر تک سے بھیگ چکی ہے
جان چکی ہے
ساون کیا ہے
اس سے پوچھو
کانچ کا برتن کیا ہوتا ہے
اس سے پوچھو
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
سونا آنگن تنہا جیون کیا ہوتا ہے