ایک منظر
منڈیروں پر رات رینگ رہی ہے
اور کیاریوں میں
پانی کی مہک سوئی ہوئی ہے
سہمے دروازوں
اور خوابیدہ روشن دانوں کے سائے میں
چاندنی کا لحاف اوڑھے
کوئی گلی سے گزرتا ہے
نیند کے دالان میں
دودھ بھرے برتن کے
گرنے کی آواز آتی ہے
لمس اور تنفس کے نم سے
ہوا بوجھل ہے
کروٹیں سانس لیتی ہیں
اور کونے میں
ایک چارپائی پر
دو کھلی آنکھوں میں
موتیے کے پھول بھیگ رہے ہیں
اوس کے گرنے تک
یہ پھول اور بھیگ جائیں گے