ایک مغربی کی مشرقیت

کوئی دو سال ادھر کا ذکر ہے کہ لندن کی چھپی ہوئی ایک ضخیم و مستند کتاب ہندوستان پہنچی، عنوان Love , Marriage, Jeolousy ( محبت، ازدواج، رقابت) موضوع، عنوان ہی سے ظاہر ہے۔ ضخامت 398 صفحات۔ کتاب کی تالیف میں متعدد ماہرین فن شامل۔ کتاب بیس بابوں میں تقسیم، ہر باب ایک ایک ماہر فن کے قلم سے نکلا ہوا۔ اور ان ماہرین میں مرد ہی نہیں، خواتین بھی شریک، زیادہ تر پیرس، لندن، برلن، ویانا، بوڈاپسٹ، اسٹا کھام اور دوسری یونیور سٹیوں کے اساتذہ، مرتب اعلیٰ لندن کے ڈاکٹر فورباتھ، کتاب میں بہترین مقالات پروفیسر مورنسن اسٹا کھام اسا کا یونیورسٹی کے قلم سے ہیں۔ ذیل میں موصوف کے ایک مقالہ ’’نارمل میک سولیٹی‘‘ (طبعی جنسیت) کا ضروری ملخص جا بجا سے درج ہوتا ہے۔


فرماتے ہیں کہ تمدن جدید کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ مرد و عورت اس آزادی کے ساتھ اور ایسے ہیجان پرور ماحول میں ملتے جلتے رہتے ہیں کہ گزشتہ نسلوں کو اس کا خیال بھی نہ تھا۔ آج کی سوسائٹی میں کھیل تماشوں کا شوق جس حد تک بڑھ گیا ہے اس نے روی زمانہ کے شوق سیانی کو بھی مات کر دیا ہے اور اس سے بڑھ کریہ کہ آج تماشے سب سے زیادہ مقبول وہی ہیں جن میں مرد عورت دونوں ہی حصہ لے رہے ہوں، دونوں کے درمیان حجاب، جو پچھلی نسلوں کا طرۂ امتیازتھا، آج مفقود ہو چکا ہے، پہلے مرد و عورت اگر بعض تماشوں، مثلاً رقص میں اکٹھا ہوتے بھی تھے، تو احتیاطیں اور تدبیریں ایسی کر لی جاتی تھیں کہ کوئی شہوانی فتنہ بڑھنے نہیں پاتا تھا۔


اب صورت حال بالکل بر عکس ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ ’نگراں‘ کے رہنے کی رسم ہی مٹ چکی ہے، نہ اس کی احتیاط باقی رہی ہے کہ ناچ میں شرکت جانے بوجھے شریف زادے ہی کریں، اور وہ بھی ’نگراں‘ کی نگرانی میں۔ پھر خود رقص کا طریقہ بھی روز بروز زیادہ ہی شہوانی ہوتا چلا گیا ہے۔ رقص خواہ وہ کسی زمانہ کا اور کسی صورت سے ہو، یوں بھی اس سے بڑھ کرکوئی چیز محرک شہوت نہیں۔ ہم آغوشی کی لذت، اور اسی حالت میں مخصوص جسمانی حرکتیں، پھر نشاط انگیز راگ، بجز کسی خواجہ سرا کے کون مرد ایسا ہوگا جس کی آتش شہوت بھڑک نہ اٹھے؟ رقص کا شوق، خواہ وہ شوق تماشائے رقص کا ہو یا خود ادائے رقص، اصلاً ایک جنسی ہی شوق ہے۔ ممکن ہے اس حقیقت سے ناگواری کے ساتھ انکار کر دیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض افراد کو شعوری طور پر اس کا پورا احساس نہ ہو لیکن بہر حال ہے اس شوق کی بنیاد جنسی ہی، مردوں عورتوں دونوں میں اس متحرک ہم آغوشی میں ایسی شدید لذت محسوس ہوتی ہے کہ نوجوان مردوں اور عورتوں کو بارہا اس حال میں انزال ہوگیا ہے۔


کھیل بھی مخلوط قسم کے بہت سےایسے نکلے ہیں جن سے جذبات شہوانی کو برابر تحریک ہی ہوتی رہتی ہے۔ ٹینس اور گالف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موٹر کے رواج نے ’’تخلیہ‘‘ کے بہترین مواقع فراہم کر دیے ہیں۔ اور امریکی زبان میں ’’بوس و کنار پارٹیاں‘‘ تو گویا انہیں کے دم سے قائم ہیں۔ ان طرح طرح کی ’’تفریحوں‘‘ یہ محرک نفس، مہیج شراب کے دور مستزاد۔ نتیجہ یہ ہے کہ انگلستانی اور امریکی سوسائٹی میں ایسے سن کے بچوں میں اور ان سے بڑھ کر بچیوں میں قوائے شہوانی بیدار ہو جاتے ہیں کہ اگلوں کے تو خواب وخیال میں بھی نہ تھے۔


مغربی تہذیب کی ایک جدید اور روز افزوں خصوصیت مخلوط غسل اور اس کے متعلقات ہیں۔ مثلاً سمندر کے کنارے جاذب نظر نیم برہنہ لباس میں گلگشت اکثر انسانوں کے لئے یہ دونوں چیزیں انتہائی شہوت انگیزی کا حکم رکھتی ہیں۔ یہ خوب خیال رہے کہ جہاں تک شہوت انگیزی کا تعلق ہے، تمدن جدید کی نیم عریانی، وحشیوں کی کامل عریانی سے بالکل مختلف ہے۔ برہنگی پر جو میری مستقل تصنیف ہے اس میں میں لکھ چکا ہوں کہ برہنگی بجائے خود ذرا بھی مہیج نفس نہیں۔ اس کی ساری شہوت انگیزی کا راز، رواج لباس ہے۔ بے لباسی صرف لباس کے تقابل میں اثر تحریک شہوت کا رکھتی ہے۔ یہ تو کچھ ڈھکا کچھ کھلا ہوتا ہے جو قلب میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے اور اس کا تجربہ جب دل چاہے، کیا جا سکتا ہے۔ سڑکوں پر مجمع آخر کن عورتوں کے پیچھے لگ جاتا ہے؟ وہی جو خوب بنی ٹھنی، بہترین فیشن کے لباس میں چٹک مٹک دکھاتی چلتی ہیں، نہ کہ ان کے جومیلے کچیلے کپڑے پہنے، دبی سکڑی ہوئی راہ طے کرتی رہتی ہیں۔


آج کی نوجوان بن بیاہی خاتون نے مردوں کے رجھانے، لبھانے کےفن میں درجہ کمال حاصل کرلیا ہے، اور وہ اس شہوانی دلکشی کا نام جو چاہے رکھ لے اور چاہے واقعی اس کو اس کی خبر بھی نہ ہو لیکن ہے یہ واقعہ کہ اب وہ دلبری و دلربائی کے فن میں ویسی ہی طاق ہو گئی ہے جیسی (لندن کی معروف و بدنام گلی) کمپیڈلی کی کوئی لکھا بیسوا ہو سکتی ہے۔ عورت کا موجودہ لباس غسل اپنی اصل ضرورت و غایت کے پورا کرنے کے لحاظ سے جیسا بھی کچھ ہو، عورت کی رعنائی و دلکشی کے بڑھانے کا ذریعہ تو بہر حال ہے۔


عورت کی’’آزادی‘‘ نے بھی خواہ وہ معاشی اعتبار سے ہو یا معاشری یا جنسی اعتبار سے، اس کی رعنائی لوگوں کی نظروں میں بہت زیادہ پھیلا رکھی ہے اور ساتھ ہی اس کے انتہائی مواقع بھی فراہم کر رکھے ہیں کہ وہ اپنی شہوت پرستی کے جذبات کو خوب جی بھر کے تسکین دے سکے۔ اب وہ شادی کی محتاج نہیں اور اس کی ضرورت تو اسے اور بھی باقی نہیں کہ نان و نفقہ کی تلاش میں کم سنی ہی میں کسی کے عقد میں آ جائے۔ مختلف پیشوں کا، تجارتوں کا ملازمتوں کا دروازہ عورت کے لئے کھل جانا اس کی شہوانی زندگی پر نہایت درجہ موثر ہوا ہے۔ عورت کی ’’معاشی آزادی‘‘ اور شوہر کی محتاجی سے اس کی رہائی نے شادی کی ضرورت کو اس کے سامنے بہت ہلکا کر ہی دیا ہے۔


باقی یوں بھی اس میں ہر طرح خیر ہی خیر نہیں ہے۔ اس کے اثرات جو پڑے ہیں انہوں نے اس کی شہوانیت کے حدود کو بہت ہی وسیع کر دیا ہے، اور اس کے لئے مواقع ایسے ایسے بہم پہنچا دیئے ہیں، جو پہلے زمانہ میں سخت قابل ملامت سمجھے جاتے۔ پھر جنسی مسائل کی تعلیم عام، خصوصاً منع حمل کے طریقوں کی اشاعت عام اور ان آلات کی فراہمی عام نے عورت کو شہوانی آوارگی اور بد چلنی کے نتائج کی طرف سے الگ بے فکر کر دیا ہے۔ کسی بن بیاہی کا باکرہ نہ ہونا پچھلے زمانہ میں تفضیح و رسوائی کا انتہائی مقام تھا۔ جنسی آزادی کے دور میں وہ ایک معمولی بات بن گئ ہے۔ ان دونوں موثرات یعنی ایک تو تدابیر منع حمل، دوسرے دوشیزگی کی بے وقعتی، نے مل ملا کر صورت حال یہ پیدا کر دی ہے کہ نوجوان عورتیں تقریباً سب کے سب بد چلنی کے لئے بس موقع ہی کی منتظر رہنے لگی ہیں۔ اور سوسائٹی کے ہر طبقہ کی عورتوں میں شہوانی بد چلنیوں میں پڑنے کا شوق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔


عورتوں کا بڑی روز افزوں تعداد میں ملازمتی اور کاروباری سلسلوں میں داخل ہونا بجا ئے خود سبب ہے آوارگی اور بد چلنی کا۔ پچھلے زمانہ کی الگ تھلگ رہنے والیوں کو مردوں کے ساتھ اس آزادنہ اور بے تکلف اختلاط کے مواقع ہی اول تو کہاں حاصل تھے اور پھر اب تو لڑکیوں کے لئے ملازمت میں داخلہ اور عہدہ میں ترقی کی شرط ہی دوشیزگی کی نذر قرار پا گئی ہے۔ تھیٹر اور سینما کی زندگی میں تو یہ ہوا عام ہو چکی ہے لیکن بعض دوسری ملازمتیں بھی بجز بیسوائی زیر نقاب کے اور کچھ نہیں۔


اوپر ذکر آ چکا ہے کہ جدید عورت کا لباس بجائے خود محرک نفس لباس ہے۔ کہنا یہ چاہئے کہ آج عورت کی دلکشی، زنانہ لباس ہی کی دلکشی ہے۔ لباس کا مقصد ہی غالباً تحریک جذبات تھا اور مقصد اب صدیوں کے بعد پوری طرح حاصل ہو چکا ہے۔ خوش لباسی کے جادو کا حال کوئی بیسواؤں کے دل سے پوچھے اور پھر جدید ایکٹرسوں سے یہ ہی فن سوسائٹی کی حسین و جمیل خاتونوں نے بھی ہر زمانہ میں سیکھے رکھا ہے اور اب اس فن کے رموز و اسرار تقریباً ساری زنانی آبادی میں عام ہو گئے ہیں۔ اب شریف گھرانوں کی عورتیں اور اہل حرفہ کی عورتیں سب اس باب میں پیشہ ور بیسواؤں کی حریف و مقابل ٹھہر گئی ہیں اور رنگے ہوئے رخسار و رنگے ہوئے ہونٹ و رنگے ہوئے ناخون جو ابھی پچیس ہی سال ادھر آبرو باختہ بیسواؤں کے ساتھ مخصوص تھے اب بڑی بڑی شریفوں اور شریف زادیوںکی علامتیں قرار پا چکی ہیں، غرض یہ کہ شریف زادیاں اپنی بے عصمتی کے عام کرنے میں اب بڑی سے بڑی بازاریوں سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔


ادبیات کی طرف رخ کیجئے، تو معلوم ہوگا کہ افسانہ کی ہیروئن، اب وہ معصوم بھولی، پارسا لڑکی نہیں ہے جو وکٹوریہ کے زمانہ تک تھی۔ اب وہ وہ ہے جو آوارگی سے خوب ذوق رکھتی ہے۔ وہ تلاش لطف میں نکلی ہے اور خوش وقتی کا حصول اس کا مقصد زندگی ہے۔ سنیما کے پردہ پر جو بھی طلافن، جو بھی زانیہ دکھائی جاتی ہے عملا ًبیسواہی ہوتی ہے، سنیما کی غائت ہی ایسی عورت کو اچھالنا ہے جو لذت کی طلب میں، شہرت کی طلب میں، دولت کی طلب میں اپنی عصمت کا سودا پوری بے حیائیوں کے ساتھ کرے۔


یہ ساری آزادیاں، یہ مردوں کے ساتھ اختلاط، یہ جدید رقص، ان سب نے مجموعاً و منفرداً عورت کے جذبہ شہوانی میں وہ زبردست تحریک پیدا کر رکھی ہے جس کی مثال بن بیاہیوں میں پچھلے زمانہ میں تو ملتی نہیں۔ یہ ممکن کیسے ہے کہ آپ مردوں اور عورتوں کو ایسی صورتوں کے ساتھ اکٹھا کریں کہ اگر فیشن کا زبر دست حصار قائم ہوتا تو یقیناً قانون فوجداری کی دفعات عائد ہو جاتیں اور پھر اس اجتماع کے باوجود دونوں جنسوں میں سوئے ہوئے فتنے بیدار نہ ہو جائیں۔ کوئی انسانی جبلت شہوانی جبلت نہیں۔ وکٹوریہ کے عہد تک یہ محض تعلیم، تربیت، ماحول، ماں باپ کی نگرانی وغیرہ کا اثر تھا۔ جو لڑکیاں جنسی معاملات میں اس قدر بھولی بھالی رہتی تھیں اور اپنے شوہروں کے پاس پہلی رات گزارنے کے قبل جانتی بھی نہ تھیں کہ زن و شوہر کی یکجائی میں ہوتا کیا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ لڑکیاں ابھی اسکول بھی نہیں چھوڑنے پاتیں کہ جنس اور عشق سب سے واقف ہو جاتی ہیں۔ کالج کی لڑکیاں تو کہنا چاہئےکہ سب ہی اور اسکول کی لڑکیوں کی اکثریت اگر پورے عمل زوجیت سے نہیں تو اس کے بیشتر حصہ سے تو واقف ہی ہوتی ہیں۔


اور یہ نہ ہو تو ہو کیا۔ کنواری لڑکی کو جب جنسی معاملات میں معلومات اتنی حاصل ہو جائیں کہ اس کی نانی، دادی بھی حیران رہ جائیں اور جوش و شوق اتنا پیدا ہو جائے جو پہلے صرف خوش نصیب شادی شدہ بیویوں کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی اطمینان ہو کہ گزر بسر کے لئے کسی مرد کا دامن پکڑنے کی ضرورت نہیں تو شادی کی اہمیت تو روز بروز گھٹ ہی جانی چاہئے، اور کم از کم اس کی عجلت تو رہنی ہی نہ چاہئے، شوق پورا موجود، جوش پورا موجود، اب آخر کیوں شوق کو پورا کرنے کے لئے تیس سال کی عمر کا انتظار کیا جائے؟ کیوں نہ اس دوشیزگی سے فوراً دست برداری اختیارکر لی جائے جس کی اب کہیں قدر و پرشش نہیں؟ اور کیوں نہ لطف اندوزی و لذت گیری کے سارے مقامات طے کر لئے جائیں؟ آخر وہ کیوں اور کب تک اپنا دل مارے رہے؟َ وہ کیوں نہ سارے مزے لوٹے جو بقول ناولوں کے، بقول ڈراما کے، بقول سنیما کے، ساری دنیا لوٹ رہی ہے، جنس مقابل کے ساتھ یا اپنی ہی جنس کے ساتھ کوں نہ بالآخر تجربہ کر کے، وہ اپنے مسئلے آپ حل کر لے؟


(پروفیسر مورنسن کے مقالہ کے صرف ایک حصہ کا یہ ملخص درج کیا گیا ہے، اصل مقالہ اس سے کہیں زیادہ مفصل اور مطول ہے)