ایک خواب کی دوری پر
اک خواہش تھی
کبھی ایسا ہو
کبھی ایسا ہو کہ اندھیرے میں
(جب دل وحشت کرتا ہو بہت
جب غم شدت کرتا ہو بہت)
کوئی تیر چلے
کوئی تیر چلے جو ترازو ہو مرے سینے میں
اک خواہش تھی
کبھی ایسا ہو
کبھی ایسا ہو کہ اندھیرے میں
(جب نیندیں کم ہوتی ہوں بہت
جب آنکھیں نم ہوتی ہوں بہت)
سر آئینہ کوئی شمع جلے
کوئی شمع جلے اور بجھ جائے مگر عکس رہے آئینے میں
اک خواہش تھی
وہ خواہش پوری ہو بھی چکی
دل جیسے دیرینہ دشمن کی سازش پوری ہو بھی چکی
اور اب یوں ہے
جینے اور جیتے رہنے کے بیچ ایک خواب کی
دوری ہے
وہ دوری ختم نہیں ہوتی
اور یہ دوری سب خواب دیکھنے والوں کی مجبوری ہے
مجبوری ختم نہیں ہوتی